بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ سے قبل آٹو انڈسٹری کو حاصل غیرمعمولی ٹیرف تحفظ میں کمی کرے اور استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد کی اجازت دے۔
خبر ارساں ویب سائیٹ پرافٹ کے مطابق آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ پاکستان کا آٹو سیکٹر غیر ضروری طور پر تحفظ یافتہ ہے، جہاں مقامی طور پر تیار کی جانے والی گاڑیوں پر کسٹمز ڈیوٹی اور دیگر ٹیرف 40 فیصد سے بھی زائد ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس بلند حفاظتی دیوار نے اس شعبے کو غیر مسابقتی اور کم مؤثر بنا دیا ہے، جس کا بالآخر نقصان صارفین کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
مقامی آٹو اسمبلرز اور پرزہ جات ساز اداروں نے ان تجاویز پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مکمل تیار شدہ گاڑیوں پر ٹیرف میں نمایاں کمی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل سطح پر درآمد کی اجازت سے مقامی صنعت کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ ان خدشات کا اظہار 6 مئی کو وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے ریونیو ہارون اختر خان کے ساتھ ایک اہم اجلاس میں کیا گیا۔
اجلاس میں شریک صنعت کے نمائندوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ایسے اقدامات سے مقامی سرمایہ کاری متاثر ہوگی، روزگار کے مواقع کم ہوں گے اور آٹو ویلیو چین کو نقصان پہنچے گا۔
تاہم، معاونِ خصوصی نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت آٹو سیکٹر کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاحات کا متوازن خاکہ تیار کرے گی، تاکہ نہ صرف آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل ہو، بلکہ مقامی صنعت کا بھی تحفظ ممکن بنایا جا سکے۔
حکومت مرحلہ وار اضافی کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی میں 5 سے 10 فیصد تک کمی کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔ جبکہ بڑی انجن والی درآمدی گاڑیوں پر نسبتاً زیادہ ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ یہ اقدامات گاڑیوں کی قیمتوں میں ممکنہ کمی کے ذریعے صارفین کو ریلیف دینے کی غرض سے کیے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی یہ سفارشات پاکستان کے معاشی اصلاحاتی پروگرام کا حصہ ہیں، جس کا مقصد مقامی صنعتوں میں مسابقت بڑھانا، قیمتوں میں کمی لانا، اور صارفین کو بہتر متبادل فراہم کرنا ہے۔ تاہم، مقامی آٹو مینوفیکچررز ان اقدامات کی مزاحمت کر رہے ہیں اور اسے اپنی طویل المدتی بقا کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔