Follw Us on:

ٹرمپ کا نیا کھیل: مشرقِ وسطیٰ میں کھربوں کی سرمایہ کاری، ایران پر دباؤ اور اسرائیل کے لیے نئی راہیں؟

زین اختر
زین اختر
Trump in ksa

ریاض سے دوحہ اور دوحہ سے ابوظہبی تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ چار روزہ دورہ ایک روایتی سفارتی مہم نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے بیچ ایک شطرنج کی بازی ہے۔ جہاں ایک طرف کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے، جدید ترین ہتھیاروں کے سودے اور ایران و غزہ پر دباؤ کی نئی حکمت عملی دیکھنے میں آرہی ہے۔ تو وہیں دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اثرورسوخ کو ازسرِنو ترتیب دینے کی سنجیدہ کوشش بھی کی جارہی ہے۔

ریاض میں منعقدہ سعودی-امریکی سرمایہ کاری فورم میں ٹرمپ نے اعلان کیا کہ سعودی عرب اگلے چار برسوں میں امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جس میں توانائی، دفاع، ٹیکنالوجی، معدنیات اور انفراسٹرکچر کے شعبے شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات نے 1.4 ٹریلین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ ادھر قطر نے خفیہ طور پر امریکی منصوبوں میں شمولیت کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ عالمی امور کے پروفیسر ڈاکٹر آصف بخاری نے ‘پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “یہ سرمایہ کاری خالص اقتصادی نہیں بلکہ گلوبل الائنسز کی ری شیپنگ ہے۔ چین کے بڑھتے اثرات کے خلاف امریکہ نے سرمایہ کاری کے نام پر ایک تزویراتی جال بچھایا ہے جس میں خلیجی ریاستیں بھی سیاسی فائدہ دیکھ رہی ہیں۔”

Trump 1

ٹرمپ کے اس دورے میں دفاعی معاہدے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں جن کی مالیت 142 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق ان معاہدوں میں جدید F-35 طیارے، ایئر ٹو ایئر میزائل اور دیگر جدید ٹیکنالوجی شامل ہے جو خطے میں امریکہ کی اسلحہ سپلائی میں سبقت کو مزید مستحکم کرے گی۔

ڈاکٹر آصف بخاری نے اس بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ “امریکہ خطے کو ایک منافع بخش اسلحہ منڈی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ لیکن اصل مقصد صرف مالی مفاد نہیں بلکہ خطے میں ایران کے خلاف فوجی توازن کو امریکی مرضی سے کنٹرول کرنا بھی ہے۔”

ٹرمپ نے سعودی وژن 2030 کی تعریف کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرے۔ یہ اقدام ابراہام معاہدوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنا سعودی عرب کے لیے سیاسی و مذہبی سطح پر انتہائی نازک مسئلہ ہے۔

ماہر عالمی امور پروفیسر ڈاکٹر عرفان علی پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “امریکہ کے ساتھ بڑھتے تعلقات سعودی عرب کے لیے تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف بھی ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ دفاعی و تکنیکی شراکت داری چاہتا ہے ایسا کرنے سے ایران، چین اور روس جیسے علاقائی و عالمی کھلاڑی اس سے ناراض ہو سکتے ہیں۔ امریکہ سے قربت سعودی وژن 2030 کے لیے تو مفید ہے لیکن اس کی سیاسی قیمت خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے بدلتے توازن میں بہت حساس ہو سکتی ہے۔”

Us president

عمان میں امریکی اہلکاروں نے ایرانی نمائندوں سے خفیہ مذاکرات کیے تاکہ جوہری معاہدے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ٹرمپ نے بھی واضح کیا کہ “فوجی آپشن” بھی میز پر موجود ہے۔ دوسری جانب قطر میں انہوں نے غزہ سے ایک امریکی یرغمالی کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے خلیجی ممالک سے حماس پر سخت اقدامات کا مطالبہ بھی کیا۔

ٹرمپ کے ہمراہ ایلون مسک (ٹیسلا) اور سیم آلٹمین (اوپن اے آئی) کی موجودگی نے اس دورے کو صرف سفارتی نہیں بلکہ “ٹیک ڈپلومیسی” کا رنگ دے دیا۔ ماہرین کے مطابق یہ امریکہ کی اس نئی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس میں تیل سے ہٹ کر مستقبل کی ٹیکنالوجی میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر عرفان کا اس بارے کہنا ہے کہ “اسپیس ٹیک اور ڈیجیٹل انرجی جیسے شعبوں میں دنیا کی قیادت حاصل کرنے کے لیے امریکی سیاسی قیادت ٹیکنالوجی لیڈرز کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں میں ہے تاکہ فیصلہ سازی براہِ راست ماہرین کے زیرِاثر ہو۔”

پاکستان میں بھی اس دورے پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے خاص طور پر اس پس منظر میں کہ امریکہ نے حالیہ برسوں میں پاکستان کو نسبتاً نظرانداز کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کے اس دورے سے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا نیا توازن قائم ہو سکتا ہے جس میں پاکستان کو محتاط اور متوازن سفارتکاری کی ضرورت ہے۔

Trump cars

ڈاکٹر عرفان علی کے مطابق “اگر سعودی عرب امریکی دباؤ میں اسرائیل کے قریب ہوا تو پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی خاص طور پر ایران اور عرب دنیا کے درمیان تعلقات میں غیرجانب داری برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔”

ان کا مزید کہنا ہے کہ “ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب خطے میں امریکی اثرورسوخ کو نئی جِہت دے سکتا ہے جس کے اثرات پاکستان کی علاقائی حکمتِ عملی پر بھی پڑیں گے۔ پاکستان کو اس دورے کے بعد ایران، سعودی عرب اور چین کے ساتھ توازن قائم رکھنے کے لیے انتہائی محتاط سفارت کاری کی ضرورت ہوگی۔”

ٹرمپ کا خلیجی دورہ وقتی سیاسی مہم نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان اثر و رسوخ کی نئی جنگ کا حصہ ہے۔ اگرچہ سرمایہ کاری، دفاعی معاہدے اور سفارتی مکالمہ فوری فوائد لاتے دکھائی دیتے ہیں مگر اس کے طویل مدتی اثرات خلیجی ممالک، ایران، اور حتیٰ کہ جنوبی ایشیا تک محسوس کیے جائیں گے۔

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس