اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں حالیہ کارروائیوں نے نصف شب کے بعد سے جاری فضائی اور زمینی حملوں میں اب تک کم از کم 60 فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ طبی حکام کے مطابق صرف شمالی غزہ میں، خاص طور پر جبالیہ مہاجر کیمپ جیسے علاقوں میں، تقریباً 45 افراد ہلاک ہوئے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، حالیہ جنگ کے آغاز سے اب تک 52,908 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ زخمیوں کی تعداد 119,721 سے تجاوز کر چکی ہے۔ دوسری جانب، غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کا دعویٰ ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد 61,700 سے زیادہ ہے کیونکہ کئی ہزار افراد تاحال ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن کے زندہ بچنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیشِ نظر عالمی سطح پر سفارتی دباؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ روس، چین اور برطانیہ نے امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے پیش کیے گئے امدادی تقسیم کے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے، اور اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ پر جاری دو ماہ سے زیادہ طویل ناکہ بندی ختم کرے تاکہ انسانی بنیادوں پر امداد کی رسائی ممکن بنائی جا سکے۔

ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو اس وقت سعودی عرب کے دورے پر ہیں، نے کہا ہے کہ وہ اس تنازعے کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے سخت مؤقف اپناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کی فوجی کارروائیاں کسی صورت روکی نہیں جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا، “ایسی کوئی صورتحال نہیں ہو گی جہاں ہم جنگ روک دیں۔”
یہ سب صورت حال غزہ میں انسانی بحران کو مزید سنگین بناتی جا رہی ہے۔ نہ صرف شہری آبادی مسلسل نشانہ بن رہی ہے بلکہ بنیادی طبی سہولیات، خوراک اور پانی تک رسائی بھی محدود ہوتی جا رہی ہے، جبکہ جنگ بندی اور فوری امداد کے لیے کی جانے والی عالمی اپیلیں اب تک بے اثر دکھائی دے رہی ہیں۔