عالمی جریدہ بلومبرگ کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حالیہ پاک انڈیا جنگ کے اثرات صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہے بلکہ اس نے عالمی سطح پر اسلحے کی منڈی اور خاص طور پر چینی عسکری ٹیکنالوجی کے بارے میں قائم پرانی سوچ کو بھی چیلنج کیا ہے۔ اس جھڑپ نے دنیا کو چینی ہتھیاروں پر ازسر نو غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب یہ تصور کہ چینی اسلحہ مغربی ہتھیاروں سے کمتر ہے، تیزی سے بدل رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان نے جنگ کے دوران چین کے تیار کردہ جے ٹین سی طیاروں سے انڈیا کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا، جن میں فرانسیسی ساختہ رافال بھی شامل تھا۔ انڈیا نے اس کی تصدیق نہیں کی، مگر ان خبروں نے چینی اسلحہ ساز ادارے کے حصص کی قیمت میں زبردست اضافہ کر دیا۔ محض ایک ہفتے میں اس کمپنی کی مارکیٹ ویلیو میں تقریباً سات اعشاریہ چھ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، جو اس بات کا عندیہ ہے کہ جنگی کامیابیاں نہ صرف سیاسی بلکہ مالیاتی فوائد بھی فراہم کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سابق انڈین وزیر أرن شوری نے انڈین میڈیا کو ’شرمناک اور مجرمانہ‘ قرار دے دیا
اس واقعے نے تائیوان کو بھی الرٹ کر دیا۔ وہاں کے دفاعی تھنک ٹینک کے محققین کا کہنا ہے کہ چین کی فضائی صلاحیتیں اب امریکی فضائی طاقت کے قریب پہنچ چکی ہیں یا ممکن ہے اسے پیچھے چھوڑنے لگیں۔ اسی پس منظر میں یہ آواز بھی بلند ہوئی کہ امریکا کو تائیوان کو مزید جدید دفاعی نظام فراہم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ چین کے اندر بھی اس پیش رفت کو سنجیدگی سے دیکھا گیا۔ معروف چینی صحافی ہو شی جن نے سوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ حملے واقعی کامیاب رہے تو تائیوان کو مزید پریشان ہونا چاہیے۔

جنگ میں ایک اور نکتہ جو دنیا کی توجہ کا مرکز بنا وہ چین کا جدید میزائل پی ایل 15 تھا، جسے پہلی بار عملی طور پر استعمال کیا گیا۔ اس کی رفتار آواز سے پانچ گنا زیادہ ہے اور اس کی کچھ باقیات انڈین سرزمین پر پائی گئیں، جو اس کے استعمال کی علامت سمجھی جا رہی ہیں۔ اس میزائل کو مغربی ایئر ٹو ایئر میزائل سسٹمز کا مدمقابل سمجھا جا رہا ہے۔
رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ چین نے گزشتہ دو دہائیوں میں اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں تیزی سے ترقی کی ہے۔ اس کی پانچ سالہ اوسط برآمدات میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ مگر اس کے بیشتر خریدار ترقی پذیر ممالک ہیں، جیسے پاکستان، میانمار اور بنگلہ دیش۔ ایک وجہ یہ ہے کہ چین کے ہتھیار نسبتاً سستے ہوتے ہیں اور چین آسان قرضوں کی پیش کش کرتا ہے۔
تاہم اس مقبولیت کے ساتھ کئی خدشات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ سابق تجزیہ کار سنڈی ژینگ کے مطابق یہ ہتھیار اگرچہ قیمت میں کم ہیں، مگر ان میں تکنیکی خرابیاں اکثر سامنے آتی ہیں۔ جب یہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تو ان کی مرمت یا فنی معاونت مہنگی اور پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ کئی مثالیں بھی رپورٹ میں دی گئی ہیں، جن میں میانمار کا اپنے چینی لڑاکا طیارے گراؤنڈ کرنا، بنگلہ دیش کی شکایات، اور پاکستان کی بحریہ کو چینی فریگیٹس کے ساتھ درپیش مسائل شامل ہیں۔
بلومبرگ کے ایک اور تجزیہ کار ایرک ژو کا کہنا ہے کہ چینی ہتھیاروں کی جنگی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بھی ہے کہ یہ دیگر غیر چینی نظاموں سے ہم آہنگ نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے ان کی برآمد محدود دائرے میں رہتی ہے۔