تصور کریں کہ آپ کے آباؤ اجدد کا گاؤں یعنی کہ وہ جگہ جہاں آپ کے خاندان نے صدیوں سے زندگی گزاری، ایک ہی رات میں نقشے سے غائب ہو جائے۔ زیتون کے درخت جڑ سے اکھاڑ دیے جائیں، پرانی گلیوں پر نئی سڑکیں ڈال دی جائیں اور آپ کو صرف یادوں کے سہارے اپنا سب کچھ چھوڑ کر نکلنا پڑے۔
یہ المیہ 15 مئی 1948 کو فلسطینی عوام پر بیتا۔ مگر ‘نکبہ’ یعنی کہ تباہی صرف ایک دن کا واقعہ نہیں تھا۔ یہ ایک مسلسل اذیت ہے، جو آج بھی غزہ کی ملبے میں دبی زندگیوں اور مغربی کنارے کی دیواروں پر لکھی جا رہی ہے۔
1917 سے پہلے فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا ایک کثیرالثقافتی صوبہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے 1922 کے مینڈیٹ کے تحت فلسطین کا کنٹرول سنبھالا۔ برطانیہ نے ایک طرف یہودیوں کے ‘قومی وطن’ کا وعدہ کیا، تو دوسری طرف عرب آبادی کے حقوق کی بھی ضمانت دی۔ مگر جب 1930 کی دہائی میں یہودی مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا، تو یہ تضادات ٹکراؤ میں بدل گئے۔
نومبر 1947 میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں ایک یہودی اور ایک عرب میں تقسیم کرنے کی تجویز دی۔ منصوبے میں یہودی آبادی کے لیے 55 فیصد زمین مختص کی گئی، حالانکہ ان کی آبادی صرف ایک تہائی تھی۔ عربوں نے اس تقسیم کو غیرمنصفانہ قرار دے کر مسترد کر دیا، اور فوراً ہی ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔

14 مئی 1948 کو اسرائیل نے آزادی کا اعلان کیا۔ چند گھنٹوں کے اندر مصر، اردن، شام، لبنان اور عراق نے فوجی مداخلت کی اور مقامی خانہ جنگی مکمل جنگ میں بدل گئی۔
جنگ کے اختتام تک، 7 لاکھ سے زائد فلسطینی یعنی عرب آبادی کا تقریباً دو تہائی اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے تھے۔ دیری یاسین جیسے درجنوں قتل عام اور 400 سے 600 دیہات کا صفایا کیا گیا۔ ان دیہاتوں کے ساتھ صدیوں پرانی فلسطینی شناخت بھی مٹائی گئی۔
بے دخل فلسطینیوں نے غزہ، مغربی کنارہ، لبنان، شام اور اردن میں کیمپ قائم کیے۔ آج اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی (UNRWA) پانچ ملین سے زائد رجسٹرڈ فلسطینی مہاجرین کو سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ ان میں سے اکثر ریاست سے محروم اور بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ عالمی امور بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان محمد ساجد نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نکبہ فلسطینی تاریخ کا کوئی بند باب نہیں، بلکہ ایک ایسا زندہ اور دردناک سلسلہ ہے جو آج بھی ہر فلسطینی کی زندگی کا حصہ ہے۔ 1948 میں فلسطینیوں کو صرف گھروں سے بے دخل نہیں کیا گیا، بلکہ انہیں شناخت، زمین اور مستقبل سے بھی محروم کیا گیا۔

آج غزہ کی گلیوں میں ملبے تلے دبے لاشے، مغربی کنارے کی دیواروں کے سائے تلے قید نسلیں اور دنیا بھر کے کیمپوں میں پلنے والی بے ریاست نسلیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ نکبہ آج بھی جاری ہے۔
اقوام متحدہ اور دنیا کی بڑی طاقتیں اگر اس المیے کو صرف ‘تنازع’ سمجھتی ہیں، تو وہ فلسطینیوں کے وجود کے انکار میں برابر کی شریک ہیں۔ جب تک انصاف، واپسی کا حق اور آزادی کو تسلیم نہیں کیا جاتا، نکبہ صرف ایک یادگار نہیں بلکہ ایک زندہ احتجاج رہے گا۔
1948 کا یہ دکھ آج بھی دہرایاجا رہا ہے۔ اکتوبر 2023 سے جاری غزہ پر اسرائیلی بمباری میں اب تک 52,700 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جب کہ 19 لاکھ افراد یعنی غزہ کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔
ہر سال 15 مئی کو فلسطینی نکبہ ڈے مناتے ہیں، جلوس، ثقافتی تقریبات اور خاموشی کے لمحات کے ذریعے وہ دنیا کو یاد دلاتے ہیں کہ “قیامت” صرف ماضی نہیں، آج کی حقیقت بھی ہے۔
2022 میں اقوامِ متحدہ نے قرارداد A/RES/77/23 منظور کی، جس میں نکبہ کی یادگاری کو تسلیم کیا گیا۔ 2025 میں اقوامِ متحدہ کی فلسطینی حقوق کمیٹی نے تاریخ میں پہلی بار نکبہ ڈے کی خصوصی نشست منعقد کی۔
2025 کے اوائل میں اسرائیل نے مغربی کنارے میں 10,300 سے زائد نئے بستی یونٹس کی منظوری دی، جو کہ ایک سال میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ یہ تعمیرات فلسطینیوں کی مزید بے دخلی اور زمین کے قبضے کو تقویت دیتی ہیں۔

‘پاکستان میٹرز’ کو سینئر صحافی ایثار رانا نے بتایا کہ نکبہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک سیاسی و استعماریت پر مبنی منصوبہ بند عمل تھا، جس کے ذریعے فلسطینیوں کی اجتماعی شناخت، زمین پر حق ملکیت اور قومی وجود کو ختم کیا گیا۔ یہ کوئی وقتی ہجرت نہیں تھی بلکہ یہ صدیوں پر محیط ایک مستقل منصوبہ بندی تھی، جس کا مقصد اسرائیلی ریاست کی توسیع اور فلسطینی ریاست کے امکان کا خاتمہ تھا۔
آج بھی جب ہم نئی بستیوں کی منظوری، غزہ کی ناکہ بندی اور واپسی کے حق سے انکار کو دیکھتے ہیں، تو یہ واضح ہوتا ہے کہ نکبہ کا دائرہ 1948 سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔ عالمی طاقتیں اگر سنجیدہ امن چاہتی ہیں تو انہیں اس بنیادی تاریخی ناانصافی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ بغیر سچ کو تسلیم کیے، کسی امن معاہدے کی بنیاد کھوکھلی رہے گی۔
جاری جنگ کے دوران پانچ لاکھ فلسطینی قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مندوب نے ان اسرائیلی منصوبوں کی مذمت کی ہے، جن کے تحت غزہ کے مزید باسیوں کو جنوب کی طرف ہجرت پر مجبور کیا جا رہا ہے، یہ سب 1948 کے المیے کی گونج ہے۔
پناہ گزینوں کی ‘واپسی کا حق’ فلسطینیوں کا بنیادی مطالبہ ہے، جو ہر امن مذاکرات میں ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ اسرائیل اسے مسترد کرتا ہے کیونکہ اس سے آبادیاتی توازن متاثر ہو سکتا ہے۔ یوں نکبہ کا زخم آج بھی ہر امن کوشش کو متاثر کر رہا ہے۔

نکبہ صرف ایک دن نہیں، ایک مسلسل المیہ ہے، جو آج بھی جاری ہے۔ 15 مئی کو دنیا بھر کے فلسطینی اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ ان کی جلاوطنی محض ماضی کا قصہ نہیں، بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے۔
یہ دن عالمی برادری سے سوال کرتا ہےکہ کیا محض یاد رکھنا کافی ہے؟ یا اب وقت ہے کہ دنیا یادداشت کو عمل میں بدلے؟ اگر دنیا نے خاموشی جاری رکھی، تو نکبہ کی تکلیف ایک اور نسل کے ساتھ گہری ہو جائے گی۔