امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری سے روک دیا ہے۔
عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کی اس متنازع پالیسی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جس کے تحت پانچ لاکھ سے زائد تارکین وطن کو 24 اپریل تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ تارکین وطن کو بے دخل کرنے سے پہلے قانونی عمل اور بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھنا لازمی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان کی حمایت‘ کرنے پر انڈیا نے ترکیے سے تجارتی و تعلیمی رابطے معطل کر دیے
عدالت نے خاص طور پر وینیزویلا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کے حق میں فیصلہ دیا اور واضح کیا کہ کسی بھی شخص کو بغیر نوٹس اور مناسب سماعت کے ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔
صدر ٹرمپ نے اس فیصلے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ججز مجھے وہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہے جس کے لیے عوام نے مجھے منتخب کیا تھا۔ ان کے مطابق یہ امریکا کے لیے ایک خطرناک دن ہے۔

ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آغاز سے ہی خاص طور پر لاطینی امریکی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے خلاف سخت پالیسیاں اپنائی تھیں۔ انہوں نے اپنی اس مہم کو امریکا کی تاریخ کی سب سے بڑی ملک بدری قرار دیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں “ایلین اینیمیز ایکٹ” کے تحت حکومت کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا اور مقدمہ واپس اپیل کورٹ کو بھیج دیا تاکہ یہ فیصلہ ہو سکے کہ آیا صدر کا اقدام آئین کے مطابق تھا یا نہیں۔ بوسٹن کی اپیل کورٹ نے بھی تارکین وطن کو تیسرے ممالک بھیجنے کے حکومتی منصوبے کو پہلے ہی مسترد کر دیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف ایک بڑی رکاوٹ ہے بلکہ یہ عدالتی نظام کی خودمختاری اور انسانی حقوق کے تحفظ کا ایک اہم مظہر بھی ہے۔ اس فیصلے کے بعد ملک بھر میں تارکین وطن کے حامیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے، اور اسے انسانی وقار کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔