پاکستان اس وقت شدید ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ہے اور ملک کے کئی علاقے معمول سے کہیں زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کر رہے ہیں۔ سڑکیں سنسان، چھاؤں قیمتی اور پانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔
مئی کے مہینے میں گرمی کی شدت نے گزشتہ کئی سالوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور لوگوں کی زندگیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ شہری علاقوں میں تیز دھوپ، خشک ہوائیں اور مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت لوگوں کو ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ہیٹ ویو کب ختم ہوگی اور عوام کو اس جان لیوا گرمی سے کب نجات ملے گی؟
‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈی جی عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع بہاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں ہیٹ ویو کی لہر شدید ہو سکتی ہے، حال ہی میں بہاولنگر میں 44 ڈگری سینٹی گریڈ، رحیم یار خان 45، بھکر 44، جب کہ کوٹ ادو میں 44 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ لاہور سمیت میدانی علاقوں میں تقریباً 42 ڈگری تک درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ، سرگودھا، ساہیوال، اوکاڑہ، ملتان، منڈی بہاوالدین، خانیوال، قصور، لیہ، جھنگ، حافظ آباد اور فیصل آباد میں 40 سے 42 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا۔

ڈاکٹر آمنہ لطیف، جو نشتر اسپتال کی ایمرجنسی میں خدمات انجام دے رہی ہیں، نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ لوگ شدید جسمانی کمزوری، لو لگنے اور ڈی ہائیڈریشن کے باعث اسپتال آ رہے ہیں۔ اگر بروقت طبی امداد نہ ملے تو معاملہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر آمنہ لطیف کا کہنا کہ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ دن کے اوقات خاص طور پر صبح 11 بجے سے سہ پہر 4 بجے تک، غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کیا جائے۔ ہلکے رنگوں اور ڈھیلے کپڑوں کا استعمال کیا جائے تاکہ جسم میں گرمی کا دباؤ کم رہے۔
ان کے مطابق پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، چاہے پیاس نہ بھی لگے۔ لیموں پانی، نمکول اور ORS جیسے محلول جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی کو پورا کرتے ہیں اور لو لگنے سے بچاتے ہیں۔ باہر نکلتے وقت سر کو گیلا کپڑا یا ٹوپی سے ڈھانپیں اور سایہ دار راستوں کو ترجیح دیں۔
اگر دھوپ میں جانا مجبوری ہو تو بار بار پانی پینا اور وقفے لینا نہ بھولیں، ہیٹ ویو سے سب سے زیادہ متاثر وہ افراد ہوتے ہیں، جو دھوپ میں کام کرتے ہیں جیسے تعمیراتی مزدور، ٹریفک پولیس اہلکار، رکشہ یا ریڑھی چلانے والے اور کھلے آسمان تلے روزی کمانے والے عام، لوگ ان کے پاس نہ تو سایہ ہوتا ہے نہ پانی کی سہولت اور نہ ہی مناسب طبی سہولیات۔

اس کے علاوہ بچے، بزرگ شہری، حاملہ خواتین اور وہ افراد جو شوگر یا بلڈ پریشر جیسے دائمی امراض میں مبتلا ہیں، بھی ہیٹ ویو سے جلد متاثر ہوتے ہیں۔ اسپتالوں کی ایمرجنسیز میں گرمی سے متاثرہ افراد کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ہیٹ ویو سے نمٹنے میں حکومت اور اداروں کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ اگرچہ عوام کو انفرادی طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں، لیکن ریاستی سطح پر مؤثر اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔
ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ بڑے شہروں میں ہنگامی کولنگ پوائنٹس قائم کیے جائیں، جہاں عوام کو پینے کا پانی، فرسٹ ایڈ اور سایہ میسر ہو۔ مزدور طبقے کے لیے دن کے اوقاتِ کار میں نرمی کی جائے تاکہ وہ دن کی تپتی دھوپ میں کام کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ اسپتالوں میں خصوصی ہیٹ اسٹروک یونٹس قائم کیے جائیں اور طبی عملے کو ہنگامی صورت حال کے لیے تیار رکھا جائے۔
میڈیا کو چاہیے کہ وہ آگاہی مہمات کے ذریعے عوام کو بروقت، درست اور مفید معلومات فراہم کرے تاکہ لوگوں میں ہیٹ ویو سے بچاؤ کا شعور پیدا ہو۔

ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر کامران مغل نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیٹ ویوز اور گلوبل وارمنگ کی شدت کم کرنے کے لیے ہمیں فوری طور پر شہری جنگلات (Urban Forests) کے قیام، شجرکاری اور سرسبز جگہوں میں اضافے پر کام کرنا ہوگا۔ درخت نہ صرف زمین کا درجہ حرارت کم کرتے ہیں بلکہ آکسیجن فراہم کرتے ہیں، زہریلی گیسوں کو جذب کرتے ہیں اور بارشوں کے امکانات بھی بڑھاتے ہیں۔ ہر شہر، ہر گلی اور ہر گھر میں درخت لگانا اب کوئی آپشن نہیں بلکہ ایک مجبوری ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ گرین بیلٹس پر عمارتیں بنانے کے بجائے وہاں شجرکاری کو فروغ دے۔ اگر ہم نے اب بھی درختوں کو اہمیت نہ دی تو آنے والے سالوں میں گرمی اور موسمی آفات ہماری برداشت سے باہر ہو جائیں گی۔
موجودہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اب صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک انسانی بحران بن چکا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں پہلے ہی صحت کی سہولیات محدود اور وسائل ناکافی ہیں، وہاں ہیٹ ویو جیسے حالات مزید مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔
ماہرینِ ماحولیات خبردار کر چکے ہیں کہ اگر حکومت نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو نہ پایا، شہروں میں سبزے کو فروغ نہ دیا اور ماحولیاتی پالیسیوں کو مؤثر نہ بنایا تو آنے والے سالوں میں گرمی کی یہ لہریں مزید خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہیں۔

ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہیٹ ویو محض ایک عارضی موسمی رجحان نہیں بلکہ ہماری زندگیوں، صحت اور مستقبل کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف خود احتیاط کریں بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں، خصوصاً بچوں، بزرگوں اور کمزور طبقات کی مدد بھی کریں کیونکہ صرف شعور، احتیاط اور باہمی تعاون ہی ہمیں اس قدرتی آزمائش سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔