بلوچستان، جو برسوں سے شورش، علیحدگی پسند تحریکوں اور مذہبی شدت پسندی کی زد میں ہے، جنوری 2024 سے مئی 2025 کے درمیان دہشت گردی کی تشویشناک لہر کی لپیٹ میں رہا۔ اس عرصے میں مختلف حملوں اور عسکری کارروائیوں میں 200 سے زائد عام شہری مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں مذہبی شدت پسند گروہوں کے ساتھ ساتھ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں بھی شامل تھیں، جنہوں نے اہم شہری، فوجی اور سیاسی اہداف کو نشانہ بنایا۔
16 جنوری 2024 کو صورتحال اس وقت سنگین ہو گئی جب ایرانی افواج نے بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے کوہِ سبز میں مبینہ طور پر جیش العدل کے ٹھکانوں پر بیلسٹک میزائل اور ڈرون حملے کیے۔
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق ان حملوں کا ہدف سنّی بلوچ عسکریت پسند تھے، تاہم پاکستانی دفتر خارجہ نے اس کارروائی کو پاکستان کی فضائی حدود کی “بلااشتعال خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے دو بچوں کی شہادت اور تین افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔
جوابی کارروائی میں پاکستان نے ایران کے سیستان و بلوچستان صوبے میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے جن میں نو افراد ہلاک ہوئے۔ یہ واقعہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کشیدگی کا باعث بنا۔

عام انتخابات سے صرف ایک روز قبل بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں ہونے والے دھماکوں میں 29 افراد جاں بحق 38 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ میں جمعیت علمائے اسلام کے انتخابی دفترکےباہردھماکے سے 12 افراد جاں بحق اور 8 زخمی ہوئے۔
اپریل 2024 میں ضلع نوشکی میں ایک مسافر بس کو روکا گیا اور نو افراد کو شناخت کے بعد اغوا کر لیا گیا۔ بعد ازاں ان کی لاشیں پہاڑی علاقے میں پل کے نیچے سے ملیں۔ مرنے والوں کا تعلق پنجاب کے مختلف شہروں سے تھا۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ان افراد کو خفیہ اداروں کا اہلکار قرار دے کر قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ اسی روز ایک اور واقعے میں نوشکی کی قومی شاہراہ پر فائرنگ سے دو افراد جاں بحق اور تین زخمی ہوئے۔
اگست 2024 میں بلوچستان میں مسلح افراد کی جانب سے مختلف مقامات پر بیک وقت حملے کیے گئے
سرکاری ہسپتال پر قبضہ بھی کیا گیا۔
گوادر کے علاقے جیونی میں نامعلوم افراد نے پولیس تھانے پر حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے پولیس اور کوسٹل ہائی وے پولیس کی دو گاڑیوں کو آگ لگا کر تباہ بھی کیا۔
موسیٰ خیل لیویز کے مطابق موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم کے مقام پر کوئٹہ کو لورالائی اور ڈیرہ غازی خان سے ملانے والی شاہراہ کو مسلح افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر دیا تھا۔ موسیٰ خیل میں راڑہ شم کے مقام سے 22 افراد کی لاشیں بھی ملیں۔ جنہیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔
چھبیس اگست کو سابق گورنر نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر دس اضلاع میں کالعدم تنظیم بی ایل اے کی کارروائیوں میں کم از کم 39 افراد جاں بحق ہوئے، کالعدم تنظیم بی ایل اے نے اسے ’آپریشن ہیروف‘ کا نام دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جوابی کارروائی کے دوران 21 شدت پسند ہلاک کیے گئے۔ 14 سکیورٹی اہلکار شہید بھی ہوئے۔

اگست 2024 میں ہی ضلع پشین میں ایک بم دھماکے میں دو بچے جان کی بازی ہار گئے، جب کہ 14 افراد زخمی ہو ئے۔
نونومبر 2024 کو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملہ ہوا، جس میں 26 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔ حملے کے وقت اسٹیشن پر راولپنڈی جانے والی ٹرین کے لیے 100 سے زائد افراد موجود تھے۔ مرنے والوں میں 12 فوجی اور 6 ریلوے اہلکار بھی شامل تھے۔ بلوچ لبریشن آرمی نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ۔
مارچ 2025
گیارہ مارچ کو کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر مسلح افراد نے بولان کے علاقے میں حملہ کر کے مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ ٹرین میں 400 سے زائد افراد سوار تھے جن میں سے بعض کا تعلق افواج پاکستان سے تھا۔ اس حملہ کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔
اس حملے میں کم از کم 18 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 26 افراد جان سے چلے گئے تھے جبکہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق 33 عسکریت پسند مارے گئے۔
اپریل 2025 میں بلوچستان کے ضلع مستونگ میں دشت روڈ پربلوچستان کانسٹیبلری کی بس پر آئی ای ڈی بم کے حملے میں 3 اہلکار شہید اور 18 زخمی ہوگئے۔ 40 سے زائد اہلکار ڈیوٹی ختم کرکے پولیس بس میں واپس آرہے تھے کہ موٹرسائیکل میں نصب ریمورٹ کنٹرول بم کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، دھماکے میں 3 اہلکار شہید اور 18 زخمی ہوگئے۔

مئی 2025 ، اکیس مئی کی صبح خضدار میں سکول بس کو نشانہ بنایا گیا، اس حملے میں چار طالبات سمیت چھ افراد جاں بحق ہوگئے۔ یہ واقعہ پاکستان اور انڈیا کی کشیدگی کے بعد پیش آیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد خطے کے حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
بلوچستان میں جاری اس بدامنی نے نہ صرف عوام کے جان و مال کو خطرے میں ڈالا بلکہ خطے کے سکیورٹی چیلنجز کو بھی مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مقامی آبادی میں خوف اور غیر یقینی کی فضا برقرار ہے، جب کہ سکیورٹی ادارے اور حکومت امن و امان کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم بڑھتے ہوئے حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عسکریت پسند تنظیمیں نہ صرف منظم ہیں بلکہ ریاستی رٹ کو کھلے عام چیلنج کر رہی ہیں۔
