پاکستان اور افغانستان نے تقریباً چار سال کی کشیدہ صورتحال کے بعد سفیروں کے تبادلے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ اعلان چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کیا گیا، جب بیجنگ میں پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی وزرائے خارجہ اجلاس منعقد ہوا۔
چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے آمادگی ظاہر کی اور جلد از جلد مکمل سفیروں کے تبادلے پر رضامندی ظاہر کی۔
بیان کے مطابق، “چین اس پیشرفت کا خیرمقدم کرتا ہے اور پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔”
لازمی پڑھیں: انڈین کرکٹ بورڈ کی ایشیا کپ سے دستبرداری سے متعلق خبروں کی تردید
پاکستان اور افغانستان نے اگرچہ اپنے دارالحکومتوں میں سفارتی موجودگی برقرار رکھی ہوئی تھی، لیکن مشنز کی سربراہی مستقل سفیروں کے بجائے چارجڈ افیئرز کر رہے تھے۔ سفیروں کے تبادلے کو طالبان حکومت کی بین الاقوامی قبولیت کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

چین نے پہلے ہی کابل میں اپنا کل وقتی سفیر تعینات کیا تھا اور رواں سال مارچ میں طالبان حکومت کے سفیر کو قبول کر لیا تھا۔
بیجنگ میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات میں دہشت گردی سے نمٹنے، علاقائی رابطوں کے فروغ، اور سی پیک منصوبے کو افغانستان تک توسیع دینے جیسے اہم معاملات زیر بحث آئے۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ تینوں ممالک کو دہشت گردی کی تمام اقسام کے خلاف مشترکہ طور پر کارروائی کرنا ہوگی اور بیرونی مداخلت سے ہوشیار رہنا ہوگا۔
اگرچہ کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا، تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ بیان میں بھارت کی حالیہ افغان پالیسی کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت نے طالبان حکومت سے رابطے بڑھانے کی کوشش کی ہے، جسے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی سمجھا جا رہا تھا۔
چینی وزارت خارجہ کے مطابق، طالبان حکومت نے بیجنگ اور اسلام آباد کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بڑی ترغیب ظاہر کی ہے۔ تینوں ممالک نے افغانستان کے سیکیورٹی ماحول میں بہتری کا خیرمقدم کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اقتصادی ترقی اور علاقائی خوشحالی کے لیے مضبوط روابط ناگزیر ہیں۔

پاکستان اور چین نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت افغانستان تک توسیع دی جائے گی۔ اس اقدام کا مقصد خطے میں ترقی، استحکام اور امن کو فروغ دینا ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق، تینوں وزرائے خارجہ نے سہ فریقی فریم ورک کو خطے میں تعاون اور اعتماد سازی کے لیے اہم قرار دیا اور مستقبل قریب میں کابل میں اگلا سہ فریقی اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اپنے مؤقف میں لچک دکھائی ہے، تاہم اس کو اب بھی دہشت گردی کے خلاف عملی اقدامات سے مشروط رکھا گیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ اس سفارتی عمل میں کلیدی ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔
یہ اقدام جنوبی ایشیا میں سفارتی حرکیات کو نئے رخ پر ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جہاں استحکام، ترقی اور سیکیورٹی باہمی تعاون پر منحصر ہے۔