Follw Us on:

ایسا ضلع جہاں درختوں پر ’سونا‘ اگتا ہے

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Gold

چین کے ضلع سنہوئی میں سنترے کے چھلکوں (چنپی) کی صنعت نے اقتصادی ترقی اور ثقافتی ورثے کو فروغ دیا، جس سے جدید طب اور کھانوں میں اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

چین کا ضلع سنہوئی، جو بظاہر ایک معمولی سا علاقہ نظر آتا ہے، حقیقت میں ایک قدیم ورثہ اورروشن مستقبل کا حامل ہے۔ اس کی گلیوں میں ہر سال خزاں اور سردیوں کے مہینوں میں ایک منفرد خوشبو پھیلتی ہے جو یہاں کی قدیم تاریخ اور خوشحال مستقبل کی گواہی دیتی ہے۔

سنہوئی، جو جنوبی گوانگ ڈونگ کے شہر جیانگ مین میں واقع ہے،اس شہر میں سنترے کے چھلکوں کی خوشبو یہاں کے رہائشیوں کے لیے “سونے” کی مانند ہے۔ کینٹونیز میں سنترہ اور سونا دونوں کا تلفظ ایک جیسی ہے۔ اس علاقے کی ترقی کی علامت شیشے کی بلند عمارتیں ہیں،جوچین کی جدید ترقی کو ظاہر کرتی ہیں۔

چنپی کی صنعت کی کامیابی سنہوئی کی خوشبو اور اس کے چھلکوں سے وابستہ ہے۔ سنترے تو دیگر علاقوں میں بھی اگائے جا سکتے ہیں مگر سنہوئی کا سنترہ اور خاص طور پر اس کے چھلکے ہی بہت بڑی قیمت رکھتے ہیں۔

چنپی کی تاریخی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، اس کا استعمال چین کی قدیم طب میں اور امپراتوروں کے درباروں میں کیا جاتا تھا اور یہ آج بھی روایتی چینی ادویات اور روزمرہ کے پکوانوں میں استعمال ہوتا ہے۔

چنپی کی کئی قسمیں ہیں، جیسے سبز سنترہ، ہلکے یا دوسرے درجے کا سرخ سنترہ، اور بڑا سرخ سنترہ جو دسمبر میں پک کر تیار ہوتا ہے۔

 

چنپی کی خوشبو اپنا ایک مقام رکھتی ہے(فائل فوٹو)

دوسری جانب چینی طب میں چنپی کو ہاضمہ کی بہتری، پھیپھڑوں کو مضبوط بنانے اور جسمانی صحت کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جدید تحقیق میں بھی یہ ثابت ہوا ہے کہ چنپی میں اینٹی آکسیڈنٹس اور اینٹی کینسراجزا پائے جاتے ہیں،جو کہ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے اور موٹاپے کی روک تھام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

چنپی کی قیمت میں اضافہ ایک اہم اقتصادی تبدیلی کا عکاس ہے۔ 1968 میں تیار ہونے والے انمول چنپی کی ہانگ کانگ میں فی کلو قیمت 75,000 ہانگ کانگی ڈالر (تقریباً 9,646 امریکی ڈالر) تک پہنچ گئی ہے۔

سنہوئی نے 2023 میں جیانگ مین شہر کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ایک چوتھائی حصہ حاصل کیا، اوراس کی چنپی کی صنعت کی مالیت 23 ارب یوان (3.2 ارب امریکی ڈالر) تک پہنچ چکی تھی۔

زہو ژی وی، جو خود ایک چنپی پروڈیوسر اور اس صنعت کے ایک اہم کھلاڑی ہیں وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ شروع میں ان کے کاروبار کو نظرانداز کیا گیا تھا، لیکن آج وہ چنپی کی صنعت میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔

شیف لی چی وائی، جو ہانگ کانگ کے مشہور “دی لیگسی ہاؤس” میں کام کرتے ہیں انہوں نے بھی چنپی کو جدید کھانوں میں شامل کرنے کے لیے کئی سالوں سے تحقیق اور تجربات کیے ہیں۔ وہ ہر سال اپنے ریسٹورنٹ میں چنپی کے مختلف عمر کے چھلکوں سے تیار کردہ پکوانوں کا خصوصی مینو پیش کرتے ہیں جس میں 6 سے 50 سال پرانے چنپی شامل ہوتے ہیں۔

شیف لی چی وائی کا’سی این این‘سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ “چنپی کی عمر اور اس کی مخصوص خصوصیات ایک بہترین کھانے کے تجربے کے لیے ضروری ہیں جیسے کہ عمر رسیدہ چنپی میں خوشبو اور ذائقہ کی گہرائی ہوتی ہے جو اسے منفرد بناتی ہے”۔ ان کے پکوان صرف صحت کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ ذائقے کو اچھا بناتا ہےاور ثقافتی ورثہ کو بھی اجاگر کرتا ہیں۔

سنترے کے چھلکے کو خشک کرکے مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے(فوٹو:سی سی این)

سنہوئی میں چنپی کی صنعت کی کامیابی نے نئی نسل کے کاروباری افراد کے لیے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ زہو کے مطابق اس صنعت کا مستقبل مزید ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں نئی اختراعات اور مصنوعات کی تیاری کے امکانات ہیں۔

سنہوئی کے دورے کے دوران شیف لی نے اپنی یادیں شیئر کیں کہ کس طرح بچپن میں وہ چنپی کے چھلکے کو معمولی چیز سمجھتے تھے اور اب ان کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ وہ نہ صرف صحت کے فوائد کے لیے بلکہ ایک لاگت کی صورت میں بھی قیمتی بن چکا ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس