Follw Us on:

’زندگی رُک سی گئی ہے‘، روس اور یوکرین میں قیدیوں کا تبادلہ، فوجیوں کے علاوہ عام شہری بھی شامل

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Prisoners

روس اور یوکرین کے درمیان 2022 میں شروع ہونے والی مکمل جنگ کے بعد قیدیوں کا سب سے بڑا تبادلہ ہوا ہے، جس میں دونوں ممالک نے 390، 390 قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا۔

اس تبادلے میں 270 فوجی اور 120 عام شہری شامل تھے، جو بیلاروس کی سرحد پر یوکرینی علاقے میں ایک دوسرے کے حوالے کیے گئے۔ یہ اقدام استنبول میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں ہوا، جس کے تحت مجموعی طور پر 1000 قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا گیا تھا، اور آئندہ دنوں میں مزید تبادلوں کی امید کی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان کی گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے

یہ تبادلہ اس لحاظ سے منفرد رہا کہ اس میں بڑی تعداد میں عام شہری بھی شامل تھے، جبکہ اس سے قبل صرف فوجی قیدیوں کے تبادلے دیکھے گئے تھے۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق، یوکرینی قیدیوں میں وہ لوگ شامل تھے جنہیں حالیہ مہینوں میں روسی سرحدی علاقے کرسک میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ان افراد کو اب بیلاروس سے روس منتقل کیا جا رہا ہے جہاں ان کا طبی معائنہ اور علاج کیا جائے گا۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے سوشل میڈیا پر اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ ہر قیدی کی شناخت اور تفصیلات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس عمل میں اپنے لوگوں کو واپس لانے کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ یوکرینی حکام نے تصدیق کی کہ رہا کیے گئے فوجی یوکرین کے مختلف علاقوں، کیف، چرنیہیو، سومی، ڈونیٹسک، کھارکیو، اور کھیرسن، سے تعلق رکھتے تھے۔ رہا شدگان میں تین خواتین بھی شامل ہیں، اور کچھ افراد 2022 سے روسی قید میں تھے۔

Prisoners.

امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تبادلے پر اپنی ٹرتھ سوشل پوسٹ میں مبارکباد دی اور کہا کہ یہ پیش رفت کسی بڑی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ تبادلے کی خبر کے بعد شمالی یوکرین میں کئی اہل خانہ جمع ہوئے، جنہیں امید تھی کہ ان کے جاننے والے بھی آزاد کیے گئے ہوں گے۔

ایک ماں نتالیہ نے عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تین سال سے اپنے بیٹے کی واپسی کا انتظار کر رہی ہیں، جبکہ اولہا نے کہا کہ جب سے اس کا بیٹا لاپتہ ہوا، اس کی زندگی رک سی گئی ہے۔

یہ تبادلہ ترکی میں ہونے والی اس دو گھنٹے کی ملاقات کا نتیجہ ہے جہاں روس اور یوکرین کے وفود مارچ 2022 کے بعد پہلی بار آمنے سامنے ہوئے تھے۔ تاہم، جنگ بندی پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ مذاکرات کا دوسرا دور بھی متوقع ہے، اور روس یوکرین کو ایک میمورنڈم پیش کرے گا۔

ادھر ٹرمپ نے روسی صدر پیوٹن سے دو گھنٹے طویل فون کال کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ فریقین فوری جنگ بندی کے لیے تیار ہیں، تاہم زیلنسکی نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے روس کی جانب سے وقت خریدنے کی کوشش قرار دیا۔ اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ویٹیکن کو ممکنہ ثالث بنانے کی تجویز کی حمایت کی، لیکن لاوروف نے اسے غیر حقیقت پسندانہ قرار دیا۔

لاوروف نے مزید دعویٰ کیا کہ زیلنسکی کی صدارت قانونی نہیں رہی اور کسی بھی امن معاہدے سے قبل یوکرین میں نئے انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ ایک قانونی قیادت کے ساتھ معاہدہ ممکن ہو۔ ان کے بقول، روس کی ترجیح ایک ایسا معاہدہ ہے جو دیرپا امن اور تمام فریقین کی سلامتی کو یقینی بنائے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس