Follw Us on:

ہارورڈ یونیورسٹی ٹرمپ انتظامیہ کے نشانے پر کیوں؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Harward gf

ایک وقت تھا جب ہارورڈ یونیورسٹی کے چین سے مضبوط روابط اسے عالمی سطح پر علمی، مالی اور سفارتی وقار دلاتے تھے لیکن اب یہی تعلقات امریکی سیاسی حلقوں میں ہارورڈ کے لیے وبالِ جان بنتے جا رہے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے جمعرات کے روز ہارورڈ کی غیر ملکی طلبا کو داخلہ دینے کی اجازت منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ الزام یہ ہے کہ یونیورسٹی میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے اثر و رسوخ کی سرگرمیاں جاری ہیں اور کیمپس پر چین نواز عناصر کی پشت پناہی سے ہارورڈ میں مبینہ یہود دشمنی کو فروغ مل رہا ہے۔

دوسری جانب ہارورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جس پر جمعہ کے روز ایک امریکی جج نے عارضی طور پر انتظامیہ کا حکم روک دیا ہے جبکہ مقدمے کی سماعت جاری ہے۔

یہ خدشات نئے نہیں، کئی ریپبلکن ارکانِ کانگریس طویل عرصے سے چین کے ہارورڈ کے ذریعے امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنے، سیکیورٹی قوانین کو بائی پاس کرنے اور امریکا میں چینی حکومت پر تنقید کو دبانے کے امکانات پر تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملے: مزید 76 معصوم فلسطینی شہید

وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار کے مطابق “ہارورڈ نے طویل عرصے تک چینی کمیونسٹ پارٹی کو اپنی حدود میں آزادانہ کام کرنے دیا۔ادارے نے سی سی پی کے احکامات پر مبنی انتقامی کارروائیوں کو نظر انداز بھی کیا۔”

ہارورڈ نے فوری طور پر اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم اس نے حکومتی اقدام کو آزادیٔ اظہار رائے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے “نقطہ نظر کی بنیاد پر سزا دی جا رہی ہے۔”

ہارورڈ کے چین سے روابط برسوں پر محیط ہیں، جن میں تحقیقی شراکت داریاں، تعلیمی مراکز، اور مالی عطیات شامل ہیں۔

 2014 میں ہانگ کانگ کے بزنس مین رونی چن کی جانب سے 350 ملین ڈالر کا عطیہ بھی انہی تعلقات کا نتیجہ تھا جس پر یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کو اُن کے والد ٹی ایچ چن کے نام سے منسوب کیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق ہارورڈ نے 2020 کے بعد بھی سنکیانگ پر امریکی پابندیوں کے باوجود “XPCC” کے افسران کو صحت سے متعلق تربیت فراہم کی۔

محکمہ داخلہ کے مطابق یہ تعاون 2024 تک جاری رہا، حالانکہ امریکا XPCC کو ایغور مسلمانوں پر مبینہ مظالم کی وجہ سے پابندیوں کی زد میں لا چکا ہے۔

لازمی پڑھیں: ’پہلا قدم‘، امریکا نے شام پر لگائی گئی پابندیاں اٹھالیں

مزید برآں، اپریل 2024 میں ایک چینی طالب علم نے ہارورڈ میں چینی سفیر کی تقریر کے دوران ایک احتجاج کرنے والے امریکی نژاد طالب علم کو زبردستی باہر نکالا، جس سے یہ تاثر مزید گہرا ہوا کہ چینی حکومت طلبا کے ذریعے تنقید کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ تعلیم کے شعبے میں غیر ملکی مالی امداد کی نگرانی کے لیے امریکی محکمہ تعلیم نے ہارورڈ سے تمام غیر ملکی فنڈنگ کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔

محکمہ کے مطابق یونیورسٹی نے بڑی تعداد میں عطیات اور معاہدے درست طریقے سے رپورٹ نہیں کیے۔

چینی سفارتخانے نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ “چین اور امریکا کے درمیان تعلیمی تبادلے باہمی فائدے کے حامل ہیں اور انہیں سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے۔”

لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام نے ماہرین تعلیم کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کی محقق یاقیو وانگ کہتی ہیں کہ “چینی حکومت کی تنقید کو دبانے کی کوششیں اور جاسوسی کے خدشات حقیقی ہیں، مگر ان کا حل غیر ملکی طلبا کی پابندی نہیں ہو سکتا۔”

مزید پڑھیں: میکسیکو میں سیاحتی مقام پر ’گرم ہوا کا غبارہ‘ حادثے کا شکار، 12 افراد زخمی

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس