غزہ کی پٹی کے سرکاری میڈیا آفس کی جانب سے اسرائیلی قبضے کی طرف سے غزہ میں شروع کی گئی نسل کشی کی جنگ کےاعدادو شمار کو شائع کیا گیا ہے، جس میں نسل کشی کی اس جنگ میں فلسطین میں ہوئے جانی اور مالی نقصانات کی تفصیل جاری کی گئی ہیں۔
جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق غزہ پر 470 دنوں تک کھلے عام نسل کشی کرتے ہوئے اسرائیلی قابض فوج نے قتلِ عام کیا ، جس کے نتیجے میں تقریباً 10100 لوگ جان کی بازی ہار گئے، جب کہ 61182 لوگ لاپتہ ہو گئے۔ان لاپتہ افراد میں سے 12222 افراد ہسپتالوں تک پہنچنے میں ناکام رہے۔
وزارتِ صحت غزہ کے مطابق 46960 افراد جنگ کے دوران ہسپتالوں کو موصول ہوئے۔ اس کے علاوہ 9268 فلسطینی خاندانوں کے خلاف قتلِ عام کیا گیا، جن میں سے 2092 خاندانوں کو قتل کر کے ان کو سول ریکارڈ سے مکمل طور پر مٹا دیا گیا۔ ان خاندانوں کے 5967 افراد کو شہید کیا گیا۔

اس کے علاوہ 4889 فلسطینی خاندان جنگ میں تباہ ہو گئے اور صرف ایک زندہ بچنے میں کامیاب ہوا، مجموعی طور پر ان خاندانوں کے 8980 افراد کو شہید کیا گیا۔
غزہ میں شہید ہونے والے بچوں کی بھی تفصیلات جاری کی گئی ہیں، جن کے مطابق 17861 بچے شہید کیے گئے ہیں۔ وہ نوزائیدہ بچے جو نسل کشی کے دوران پیدا ہوئے اور شہید ہوگئے ان کی تعداد 214 ہے۔ ایک سال سے کم عمر کے تقریباً 808 بچے شہید، جب کہ غذائی قلت اور فاکہ کشی کی وجہ سے 44 بچے جان کی بازی ہار گئے۔ ان کے علاوہ تقریباً 7 بچے بےگھر خیموں میں شدید سردی کے باعث شہید ہوئے۔
بچوں کے علاوہ تقریباً 12316 خواتین ایسی تھیں جو اسرائیلی قبضے کی وجہ سے شہید ہوئیں، جب کہ طبی عملے کے 1155 افراد شہید ہوئے۔ مزید یہ کہ دفاع کرتے ہوئے 94 شہری جان لٹا بیٹھے۔
فلسطین کے تقریباً 205 صحافی ایسے تھے جو اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنائے گئے۔ اس کے علاوہ امدادی اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے 150 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جس میں 736 افراد خود کو بچانے میں ناکام رہے اور اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے۔

اسرائیل کی نسل کشی سے ہسپتال بھی محفوظ نہ رہ سکے اور ہسپتالوں کے اندر قائم 7 اجتماعی قبروں سے 520 شہداء برآمد ہوئے، جب کہ 110725 افراد ایسے تھے جو زخمی تھے اور ہسپتالوں کو موصول ہوئے، تقریباً 15000 افراد ایسے ہیں جنھیں طویل مدتی بحالی کی ضرورت ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 4500 اعضا کٹنے کے کیس رپورٹ ہوئے جن میں 18 فیصد بچے تھے، اعضا کٹنے سے تقریباً 70 فیصد بچے اور خواتین متاثر ہوئیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 400 صحافی اور میڈیا ورکرز زخمی ہوئے۔
اسرائیل کی جانب سے تقریباً 220 پناہ گاہ اور نقل مکانی کے مراکز کو اسرائیلی قبضے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے ساتھ غزہ کی پٹی کے 10 فیصد علاقے پر اسرائیلی قبضے نے انسانی ہمدردی کے علاقوں کے طور پر دعویٰ کیا تھا۔
وزارتِ صحت کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 38495 بچے غزہ میں ایسے ہیں جن کے ایک یا دونوں والدین اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے۔ اس کے علاوہ 13901 خواتین ایسی ہیں جنھوں نے نسل کشی کے دوران اپنے شوہروں کو کھودیا۔

غذائی قلت اور خوراک کی کمی کی وجہ سے تقریباً 3500 بچوں کی جان کو خطرہ ہے۔ 12700 زخمی ایسے ہیں جن کو بیرون ملک سے اعلاج کروانے کی ضرورت ہے۔ان کے علاوہ 12500 کینسر کے مریض غزہ میں موجود ہیں جن کو علاج کروانے کی ضرورت ہے، مزید 3000 افراد ایسے ہیں جنھیں دیگر بیماریاں ہوئیں اور انھیں علاج کروانے کی ضرورت ہے۔
اعدادو شمار کے مطابق نقل مکانی کی وجہ سے متعدد بیماریوں کی وجہ سے 2136026 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کی وجہ سے تقریباً 71338 صرف ہیپاٹائٹس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی جاری نسل کشی کی وجہ سے60000 خواتین ایسی ہیں جو کہ حاملہ ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔ 350000 مریض ایسے ہیں جن کی جان کو ادویات کے داخلے پر قبضے کی روک تھام کی وجہ سے خطرہ ہے۔
غزہ میں نسل کشی کے آغاز کے بعد سے اب تک قبضے کے ذریعے تقریباً 6600 گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے 360 اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 3 ڈاکٹروں کو جیلوں میں پھانسی دے دی گئی۔ اس کے علاوہ ناموں کے ذریعے 48 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ 26 سول ڈیفنس کے اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا، جب کہ 2 بے گھر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا۔
بے گھر ہونے والوں نے خیمے لگائے تو اسرائیلی جارحیت سے تقریباً 110000 خیمے رہنے کے لیے غیر موزوں ہوگئے۔ اسرائیلی قبضے سے 216 سرکاری ہیڈکوارٹرز تباہ ہوگئے۔ تقریباً 137 اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو قبضہ کرکے اسرائیل نے مکمل تباہ جب کہ 357 اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو جزوی طور پر تباہ کیا۔

دوسری جانب جنگ کے دوران اسرائیلی قبضے سے غزہ میں 12800 طلباء مارے گئے، جب کہ 785000 طلباء اس قبضے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہوگئے۔اس کے علاوہ اساتذہ اور تعلیمی عملہ کے 760 افراد اسرائیلی قبضے سے جان لٹا بیٹھے، جب کہ 150 اسکالرز، ماہرینِ تعلیم اور یونیورسٹی کےپروفیسروں کو اسرائیل نے قبضے کے ذریعے سزائے موت سنادی۔
غزہ میں موجود مذہبی مقامات کو بھی جارحیت کا نشانہ بنایا گیا، تقریباً 823 مساجد کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا جب کہ 158 مساجد ایسی ہیں جنھیں شدید نقصان پہنچا اور بحالی کی ضرورت ہے۔ مساجد کے علاوہ 3 گرجا گھروں کو قبضے کا نشانہ بنا کر تباہ کر دیا گیا۔
غزہ میں موجود 60 قبرستانوں میں سے 19 قبرستان ایسے ہیں جو اسرائیلی نسل کشی کی وجہ سے مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ قبضے کے ذریعے قبرستانوں سے 2300 لاشیں چرائی گئی ہیں۔
اگر ہاؤسنگ یونٹ کی بات کی جائے تو 161600 کو قبضے کے ذریعے مکمل طور پر تباہ کیا گیا، 82000 مکانات ایسے ہیں جو تباہ ہوئے ہیں اور ناقابلِ رہائش ہیں۔اس کے علاوہ 194000 ہاسنگ یونٹس کو جزوی طور پر تباہ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب تقریباً 100000 ٹن دھماکہ خیز مواد اسرائیل نے غزہ پر گرایاجس کی وجہ سے 34 ہسپتال ناکارہ ہوگئے ہیں۔ قبضے کی وجہ سے صحت کے تقریباً 80 مراکز ناکارہ ہوگئے ہیں، 162 صحت کی دیکھ بھال کے اداروں اور 136 ایمبولینسوں کو قبضے کا نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی وحشیانہ جارحیت نےفلسطین کی ثقافت کو بھی تباہ کردیا۔ آثارِ قدیمہ اور ثقافتی ورثے کے تقریباً 206 مقامات قبضے سے تباہ ہوگئے۔ اس کے علاوہ 3680 کلومیٹر بجلی کا نیٹ ورک قبضے سے تباہ ہوگیااور تقریباً 2105 ٹرانسفارمرز تباہ ہوگئے۔
اس کے علاوہ 33000 میٹر پانی کا نیٹ ورک، جب کہ 655000 میٹر سیوریج نیٹ ورک قبضے سے تباہ ہوگیا۔ دوسری جانب 2835000 میٹر سڑکیں اور گلیاں قبضے سے تباہ ہوگئیں، 42 کھیلوں کے میدانوں کو نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا۔ مزید یہ کہ تقریباً 717 پانی کے کنویں قبضے کی وجہ سے ناکارہ ہوگئے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی نسل کشی کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں 88 فیصد تباہی کی شرح ریکارڈ کی گئی ہے۔ نسل کشی سے براہِ راست اب تک 38 بلین امریکی ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔