موجودہ سال مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک غیر معمولی موڑ لے کر آیا ہے، جہاں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں سنجیدگی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس پیشرفت نے نہ صرف خطے میں طاقت کے توازن کو جھنجھوڑاہے بلکہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے نئے مواقع اور چیلنجز بھی پیدا کیے۔
ایک ایسا ملک جو ایران کا جغرافیائی ہمسایہ بھی ہے اور سعودی عرب کا معاشی حلیف بھی پاکستان کے لیے اس نئی صورت حال میں سفارتی توازن برقرار رکھنا نہایت اہم اور پیچیدہ معاملہ بن چکا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں کچھ مسائل پیش آئے جن پر سنجیدگی سے توجہ دی جا رہی ہے۔ ہمارے لئے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی پالیسی انتہائی اہم ہے اور سعودی عرب کا اس پالیسی میں بہت اہم مقام ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پُرعزم ہیں کہ کوئی عنصر ہمارے ہمسایوں سے تعلقات کے راستے میں آڑے نہ آئے۔ ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے بڑھتے تعلقات کو نقصان پہنچائے، ایران اس سال حج کے انتظامات کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کا تناؤ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد سے دونوں ممالک میں نظریاتی، مذہبی اور جغرافیائی اختلافات گہرے ہوتے چلے گئے۔
2016 میں ایرانی مظاہرین کے ہاتھوں سعودی سفارتخانے کو نذرِ آتش کیے جانے کے بعد تعلقات مکمل طور پر منقطع ہو گئے۔ اس کے بعد یمن کی جنگ، شام کا بحران اور او آئی سی میں اثر و رسوخ کے مقابلے نے کشیدگی کو مزید بڑھایا۔
پاکستان نے ہمیشہ ان دونوں اسلامی ممالک کے ساتھ توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ سعودی عرب نے پاکستان کی معاشی مشکلات میں مالی معاونت فراہم کی، جب کہ ایران کے ساتھ پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی رشتے بہت گہرے ہیں۔ ان تعلقات میں پیچیدگی اس وقت اور بڑھتی ہے جب داخلی فرقہ وارانہ کشیدگی اور خارجی دباؤ کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں ممکنہ استحکام کی امید پیدا ہوئی ہے۔ جس سے اس سوال نے جنم لیا ہے کہ پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟
پاکستان میں دونوں ممالک کے اثرات واضح ہیں۔ ایران کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں شیعہ آبادی کی بڑی تعداد ہے، جب کہ سعودی عرب کی مذہبی اور مالی معاونت پاکستان کے دینی اداروں اور معیشت پر اثر انداز ہوتی رہی ہے۔
‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ عالمی امور ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بہتری پاکستان کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس سے پاکستان کو دونوں برادر اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا موقع ملے گا۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے میں امن و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
مزید پڑھیں: جن اداروں کا کام جنگ لڑنا ہے وہ سیاست میں مداخلت کر رہے ہیں، علی امین گنڈاپور
پاکستان کے لیے موجودہ صورتحال میں کئی پیچیدہ چیلنجز درپیش ہیں۔ ایران کے ساتھ بلوچستان کی سرحد پر بدامنی اور بلوچ شورش ایک مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے، جو دونوں ممالک کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب پر پاکستان کا معاشی انحصار روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ نہ صرف لاکھوں پاکستانی وہاں ملازمت کرتے ہیں بلکہ سعودی عرب سے ملنے والی مالی امداد اور تیل کی فراہمی بھی معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ ان حالات میں اگر دونوں ممالک کی پالیسیوں میں تضاد پیدا ہو، تو پاکستان کے لیے ایک طرف جھکاؤ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو اندرونی طور پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی نصاب میں رواداری اور برداشت کے موضوعات شامل کرنے چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر بین المذاہب مکالمے کو فروغ دے تاکہ معاشرتی ہم آہنگی قائم رہے۔

اس مشکل صورتحال میں پاکستان کے لیے کئی سفارتی اور اقتصادی مواقع بھی موجود ہیں۔ اگر پاکستان دونوں ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کرے تو نہ صرف اسلامی دنیا میں اس کی ساکھ بڑھے گی بلکہ معاشی فوائد بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔
پاک-ایران-سعودی سہ فریقی تعاون کے امکانات جیسے کہ توانائی منصوبے، تجارتی راہداری یا مشترکہ سیکیورٹی فورمز نہ صرف خطے میں ترقی کو فروغ دیں گے بلکہ پاکستان کے لیے نئے معاشی دروازے بھی کھول سکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے سب سے مؤثر خارجہ پالیسی شاید ترکی اور قطر کی مانند ”متوازن غیر جانب داری“کا ماڈل ہو سکتی ہے۔ یہ حکمتِ عملی دونوں فریقین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے کسی ایک کی جانب جھکاؤ سے بچنے میں مدد دے سکتی ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس چین جیسی سفارتی طاقت نہیں ہے، لیکن وہ خطے میں امن کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھتے ہوئے خطے میں استحکام کے لیے کوششیں جاری رکھے۔
اسٹریٹجک مکالمہ، مذہبی ہم آہنگی اور پبلک ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان نہ صرف داخلی سطح پر استحکام لا سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی سفارتی پوزیشن کو مضبوط کر سکتا ہے۔ بین الاقوامی کانفرنسز، ثقافتی میلوں اور مذہبی مکالمے کے ذریعے پاکستان ایک متوازن امیج پیش کر سکتا ہے۔
اس حساس معاملے پر مختلف ماہرین سے رائے لینا پاکستان کی پالیسی سازی کے لیے نہایت اہم ہے۔ بین الاقوامی تعلقات، مشرقِ وسطیٰ کی سیاست، اور داخلی سیکورٹی پر کام کرنے والے ماہرین ہی بہتر انداز میں اس بات کا تجزیہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان ماضی میں کس حد تک توازن برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے اور اب کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔
ایران اور سعودی عرب کی قربت کا اثر نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ پر بھی پڑے گا۔ امریکا سعودی عرب کا روایتی حلیف رہا ہے اور انڈیا ایران اور سعودی عرب دونوں سے تعلقات بڑھا رہا ہے، اس نئی صورت حال سے اپنی حکمت عملی بدل سکتے ہیں۔

ماہرِ عالمی امور ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری سے خطے میں امریکا اور انڈیا کے اثر و رسوخ میں کمی آ سکتی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے میں اپنی سفارتی پوزیشن کو مضبوط کرے اور اقتصادی تعاون کو فروغ دے۔
ایران اور سعودی عرب کی بڑھتی قربت پاکستان کے لیے ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے، جہاں خطرات موجود ہیں، وہیں امکانات بھی موجود ہیں۔ سفارتی بصیرت، داخلی ہم آہنگی اور علاقائی پالیسیوں میں توازن کے ذریعے ہی پاکستان اس نئی دنیا میں ایک باعزت اور مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے یا ایک بار پھر حالات کے دھارے کے رحم و کرم پر رہے گا؟