Follw Us on:

بجٹ 2025: عوام کے لیے ریلیف یا معاشی بوجھ؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Market
تقریباً 9 کھرب روپے، صرف سود کی ادائیگیوں میں صرف ہو جائے گا۔ (فوٹو: ڈان نیوز)

پاکستان میں بجٹ ہمیشہ ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب عوام کو امید ہوتی ہے کہ شاید اب کی بار کچھ ریلیف مل جائے گا، لیکن جیسے جیسے مالی سال 2025-26 کا بجٹ سامنے آنے لگا ہے، عوام کی یہ امیدیں ایک بار پھر مایوسی میں بدلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے بجٹ میں تقریباً 19 کھرب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے، لیکن یہ بڑی رقم عوام کے لیے خوش خبری کی علامت نہیں بلکہ ایک بڑے معاشی بوجھ کی طرف اشارہ ہے۔

حکومت نے بجٹ کی ترجیحات کا رخ جس سمت میں رکھا ہے، وہ صاف بتاتا ہے کہ اس بار بھی عام آدمی کے لیے کوئی خاص ریلیف نہیں ہے۔ سب سے بڑا حصہ، یعنی آدھے سے زیادہ بجٹ، تقریباً 9 کھرب روپے، صرف سود کی ادائیگیوں میں صرف ہو جائے گا۔ یہ وہ قرضے ہیں جو پاکستان نے گزشتہ برسوں میں مختلف ذرائع سے حاصل کیے، جن میں سب سے اہم کردار عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا ہے۔ بجٹ کا دوسرا بڑا حصہ، یعنی 2.5 کھرب روپے، دفاعی اخراجات کے لیے مختص کیا گیا ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 0.4 کھرب روپے زیادہ ہے۔

جہاں ایک طرف قرضوں اور دفاع پر بھاری رقوم رکھی گئی ہیں، وہیں تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے بجٹ میں نمایاں کٹوتیاں تجویز کی گئی ہیں۔ ترقیاتی بجٹ کو کم کر کے صرف 1 کھرب روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو گزشتہ سال 1.4 کھرب روپے تھا۔ وفاقی تعلیم کے شعبے میں 27 فیصد جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 32 فیصد بجٹ کٹوتی کی گئی ہے۔ ان فیصلوں پر ماہرین شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

Website web image (33)

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے معروف ماہر معیشت ڈاکٹر احسن خان نے کہا، “ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ جب آپ ان پر انحصار کرتے ہیں تو اپنی پالیسیوں کی خودمختاری کھو بیٹھتے ہیں۔ شرح سود کو بڑھانے کا حکم بھی وہی دیتے ہیں، جو اس وقت تقریباً 11 فیصد ہے۔ اس شرح پر جب ہم قرضے لیتے ہیں تو سود کی ادائیگی خود بجٹ کا سب سے بڑا بوجھ بن جاتی ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جو آئی ایم ایف کے محتاج نہیں ہیں، وہاں یہ شرح 5 فیصد سے بھی کم ہے۔”

بجلی اور پانی کے شعبے کو بھی اس بجٹ میں خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ بجلی اور پانی کے منصوبوں کے بجٹ میں 41 فیصد کمی تجویز کی گئی ہے، جس سے دیامر بھاشا ڈیم جیسے بڑے منصوبے متاثر ہو رہے ہیں۔ وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے خود اعتراف کیا ہے کہ موجودہ حالات میں دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل میں بیس سال بھی لگ سکتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب ملک کے کئی علاقوں میں پانی کی قلت اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے، یہ منصوبے ہی واحد حل ہو سکتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سب سے سستی بجلی صرف پانی سے پیدا کی جاتی ہے، لیکن ترقیاتی ترجیحات میں یہ بات نظرانداز کی جا رہی ہے۔

مزید برآں، حکومت نے پارلیمنٹری اسکیموں کے لیے پچاس ارب روپے رکھنے کی تجویز دی ہے، جسے پائیدار ترقیاتی اہداف کے تحت برقرار رکھا گیا ہے۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے پاکستان میٹرز سے گفتگو میں ماہرِ پبلک پالیسی ندیم الحق نے کہا، “یہ بجٹ عوام کے لیے نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کے لیے بنایا جاتا ہے۔ یہاں ترقیاتی منصوبے بھی اس نیت سے نہیں بنتے کہ عوام کو فائدہ ہو، بلکہ مقصد ووٹرز کو خوش کرنا ہوتا ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ “عوام اب بیوروکریٹس کی عیاشیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ حکومت سب کچھ کرتی ہے سوائے اس کے کہ ان سرکاری بابوؤں کے غیر ضروری اخراجات میں کمی کرے۔”

Inflation

بجلی کے شعبے میں حکومت نے گردشی قرض کو ختم کرنے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے، جن کے مطابق بینکوں سے 1252 ارب روپے قرض لیا جائے گا، اور یہ رقم اگلے 6 سال میں عوام سے وصول کی جائے گی۔ بجلی کے بلوں میں 10 فیصد ڈیبیٹ سروس سرچارج شامل کیا جائے گا، اور حکومت کو اس چارج میں اضافے کا اختیار بھی ہوگا۔ مزید برآں، بجلی کی سبسڈی میں کمی اور گیس کی قیمت میں اضافہ بھی اس بجٹ کا حصہ ہوگا، جس کا بوجھ بالآخر عوام پر ہی پڑے گا۔

سماجی تجزیہ کار سعدیہ قریشی نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، “بجٹ میں اگر تعلیم، صحت، پانی اور بجلی جیسے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی جائے گی تو عوام کی زندگی مزید مشکل ہی ہوگی۔ غریب اور متوسط طبقے کی حالت پہلے ہی خراب ہے۔ روزمرہ کی اشیاء کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور تنخواہیں ویسی کی ویسی ہیں۔ ایسے میں بجٹ سے کوئی امید رکھنا بے وقوفی ہے۔”

حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کے لیے کچھ مراعات، جیسے پراپرٹی سیکٹر میں ودہولڈنگ ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجاویز دی جا رہی ہیں، لیکن ان سے صرف مخصوص طبقات کو فائدہ ہوگا، عوام کی اکثریت کو نہیں۔ مہنگائی میں کمی اور معیشت کی بہتری کے حکومتی دعوے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ بیروزگاری میں اضافہ، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا قابو سے باہر ہونا اور عوام کا بجٹ سے مایوس ہونا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ پالیسیوں میں توازن کی کمی ہے۔

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بجٹ عوام کی زندگی آسان بنانے کے بجائے مزید مشکلات کا باعث بنے گا۔ جہاں ایک طرف قرضوں کی ادائیگی اور دفاع کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے، وہیں تعلیم، صحت، پانی، بجلی اور ترقیاتی منصوبوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں عوام کی بے چینی میں اضافہ فطری ہے۔ اگر حکومت نے سنجیدہ اصلاحات نہ کیں اور معاشی حکمت عملی کو شفاف، عوام دوست اور طویل المدتی نہ بنایا، تو یہ بجٹ سیاسی و معاشی استحکام کے بجائے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس