13جون 2025 کی گرم رات، جب دنیا نیند کی آغوش میں تھی، مشرق وسطیٰ کی فضا ایک بار پھر دھماکوں سے گونج اٹھی۔ اسرائیلی فضائیہ نے تہران، اصفہان اور نطنز سمیت ایران کے اہم عسکری اور جوہری مراکز پر بڑے پیمانے پر حملے کیے۔ ان حملوں نے نہ صرف سفارتی کشیدگی کو شدید تر کر دیا بلکہ دونوں ممالک کے عوام کو بھی خوف، غصے، اور غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کر دیا۔
ایک طرف ایران کا ریاستی بیانیہ ہے جو “جواب دینے کے لیے تیار” ہونے کی دھمکیاں دے رہا ہے، تو دوسری طرف اسرائیلی دفاعی ادارے ان کارروائیوں کو “احتیاطی اور دفاعی اقدامات” قرار دے رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے بیچ، اصل کہانی عوامی ردِعمل کی ہے وہ عام لوگ جو سوشل میڈیا پر اپنے خوف، غصے، حب الوطنی یا تنقید کا اظہار کر رہے ہیں۔
ایران اور اسرائیل کے شہری سوشل میڈیا پر اس تنازعے کو کیسے دیکھ رہے ہیں، عالمی ردِعمل کیا ہے، اور یہ سب ایک ممکنہ جنگ کی جانب اشارہ تو نہیں کر رہے؟

ایرانی عوام کا ردِعمل:
ایرانی شہری سوشل میڈیا پر شدید غصے اور خوف کا اظہار کر رہے ہیں ماریزیہ، 39 سالہ ایرانی خاتون نے رائٹرز کو بتایا:
” میں ایک زوردار دھماکے کی آواز سے جاگی۔ میری گلی کے لوگ گھبراہٹ میں گھروں سے باہر نکل آئے، ہم سب شدید خوفزدہ تھے
“اگر یہ صورتحال مزید بگڑتی ہے تو میں اپنے بچوں کی سلامتی کے حوالے سے شدید فکرمند ہوں،”
کچھ صارفین نے حب الوطنی کے جذبات کا اظہار کیاقم سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے انسٹاگرام پر لکھا:
“میں بسیج کا رکن ہوں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے خون سے دشمن کو جواب دیں۔
دوسری جانب، کئی افراد نے ترکی یا متحدہ عرب امارات جانے کا ارادہ ظاہر کیا، جس سے شہری نقل مکانی کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔
اسرائیلی مؤقف:
اسرائیلی وزارت دفاع کے ترجمان کے مطابق: “یہ حملے ایران کے عسکری اور جوہری منصوبوں کو محدود کرنے کے لیے کیے گئے تاکہ اسرائیل کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔”
اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں اسے “تاریخی کامیابی” قرار دیا جا رہا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ اسرائیل امریکا یا نیٹو کی حمایت کے بغیر تنہا یہ کارروائی کر رہا ہے۔
امریکی موقف:
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے فوری ردِعمل میں واضح کیا کہ: “یہ حملے اسرائیل کا یکطرفہ فیصلہ تھے۔ امریکا اس میں شریک نہیں۔”
Statement from Secretary of State Marco Rubio
— The White House (@WhiteHouse) June 13, 2025
“Tonight, Israel took unilateral action against Iran. We are not involved in strikes against Iran and our top priority is protecting American forces in the region. Israel advised us that they believe this action was necessary for its… pic.twitter.com/5FFesh3dkF
تاہم امریکا نے خطے میں موجود اپنے فوجی اڈوں پر ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے تاکہ کسی ممکنہ ایرانی ردعمل سے بچا جا سکے۔
چین نے ایران پر اسرائیلی حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خطے میں امن اور استحکام کے لیے کشیدگی کم کرنے پر زور دیا ہے، جیسا کہ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جمعے کے روز ایک معمول کی پریس بریفنگ میں ترجمان لن جیان نے کہا: “چین ایران کی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کی کسی بھی خلاف ورزی کی مخالفت کرتا ہے، اور وہ کسی بھی قسم کی کشیدگی میں اضافے یا تنازعے کے پھیلاؤ کے خلاف ہے۔ خطے میں اچانک تناؤ کا بڑھ جانا کسی کے مفاد میں نہیں”چین اس صورتحال کو کم کرنے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ بیجنگ اور تہران کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں، جو چین کی توانائی کی ضروریات کے لیے ایرانی تیل کی ترسیل اور مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔
پاکستان نے شدید الفاظ میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: “یہ حملہ بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ایران کو اپنی سالمیت کا دفاع کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

سعودی عرب، ترکی اور قطر نے بھی اس حملے کو غیرضروری اشتعال انگیزی قرار دیا اور فوری سیزفائر کا مطالبہ کیا۔
آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم انتھونی البانیز نے ایران اسرائیل کشیدگی پر بات کرتے ہوئے کہا کہہم موجودہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی ذرائع کے ذریعے کام کر رہے ہیں۔ ہماری بھرپور کوشش ہے کہ حالات مزید غیر مستحکم نہ ہوں”انہوں نے مزید کہا کہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نہ صرف مقامی بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے، اور تمام فریقین کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
بین الاقوامی ٹویٹس
مڈل ایسٹ آئی کا کہنا ہے کہ ایران کے نطنز پلانٹ پر حملہ مشرقِ وسطیٰ میں نئی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔
ایک پاکستانی سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ اگر ایران جواب دیتا ہے تو پورا خطہ آگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
ایک اور صارف نے کہا کہ پاکستان کو غیرجانبدار رہنا چاہیے، مگر انسانی بنیادوں پر امن کی اپیل لازم ہے۔
حملے کے فوری بعد عالمی تیل کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ دبئی، ہانگ کانگ اور نیویارک اسٹاک مارکیٹس میں بھی کمی دیکھی گئی۔ ایران میں ڈالر کی قیمت 20,000 تومان سے تجاوز کر گئی، ایران نے عندیہ دیا ہے کہ وہ “جلد، سخت اور ہدفی” ردعمل دے گا۔ ماہرین کے مطابق اگر ایران براہِ راست اسرائیل پر جوابی حملہ کرتا ہے، تو یہ مشرقِ وسطیٰ کو ایک اور تباہ کن جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان، ترکی، خلیجی ریاستیں اور چین کو ثالثی کے کردار کی طرف بڑھنا ہوگا۔

اسرائیل کا حالیہ اقدام محض ایک حملہ نہیں بلکہ ایک نئی جنگ کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث، عوامی اضطراب اور علاقائی حکومتوں کی مذمت اس بات کا اشارہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں ایک غلط فیصلہ لاکھوں زندگیاں خطرے میں ڈال سکتا ہے ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تصادم صرف عسکری نوعیت کا نہیں، بلکہ اس کی جڑیں سیاسی، نظریاتی اور علاقائی اثر و رسوخ کی کشمکش میں پیوست ہیں۔
ایک طرف جوہری پروگرام پر عالمی برادری کی تشویش، تو دوسری جانب خودمختاری اور مزاحمت کے بیانیے کے گرد گھومتی ایرانی پالیسی۔لیکن سب سے زیادہ اثر اس صورتحال کا عام عوام پر ہو رہا ہے ، وہ ایرانی جو خوف میں راتیں جاگ کر گزارتے ہیں، اور وہ اسرائیلی جو ہر لمحے ممکنہ راکٹ حملوں کے سائے میں جیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر پھیلنے والی ہر پوسٹ، ہر ویڈیو، ہر ہیش ٹیگ صرف بیانیے کا حصہ نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کے جذبات، مایوسی، حب الوطنی اور بعض اوقات سیاسی پروپیگنڈہ کا مظہر بھی ہے۔ اس وقت سب سے اہم سوال کیا دنیا اس ممکنہ آگ کو بجھانے میں اپنا کردار ادا کرے گی، یا صرف تماشائی بنی رہے گی؟