خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال (2024-25) کے بجٹ میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقیاتی اور مالیاتی ترجیحات طے کی گئی ہیں۔ یہ بات انہوں نے ہفتے کو بجٹ کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ “گزشتہ مالی سال کے دوران خیبرپختونخوا کو وفاق کی ٹیکس وصولیوں میں کمی کے باعث 90 ارب روپے کم موصول ہوئے۔” ان کے مطابق وفاقی بجٹ میں خیبرپختونخوا کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز سندھ اور پنجاب کے مقابلے میں کم رکھے گئے ہیں۔ مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ “وفاق نے کبھی این ایف سی ایوارڈ اور اے ڈی پی کی مکمل رقم فراہم نہیں کی۔” انہوں نے دعویٰ کیا کہ رواں مالی سال کے دوران صوبہ (93 ارب روپے) کا اپنا ہدف حاصل کر سکتا ہے۔

مشیر خزانہ نے بتایا کہ قبائلی اضلاع کے لیے سال 2024 میں (20 ارب روپے) اے آئی پی کی مد میں اور (47 ارب روپے) کرنٹ بجٹ سے صوبے نے خود فراہم کیے۔ ان کے مطابق موجودہ بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کا حجم 153 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے، جس کے تحت 419 ارب روپے مالیت کی اسکیمیں مکمل کی جا چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “آئندہ مالی سال میں 810 نئے ترقیاتی منصوبے شامل کیے گئے ہیں جن کی مجموعی لاگت پانچ سو ارب روپے سے زائد ہے۔”
مزمل اسلم نے کہا کہ نئے مالی سال میں کوئی نیا قرضہ نہیں لیا جا رہا، تاہم اگر کوئی بڑا منصوبہ شروع کرنا ہو تو قرض لینے کی گنجائش موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “قرضوں کی ادائیگی کے لیے ایک سو پچاس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس سے روزانہ چھ کروڑ روپے منافع حاصل ہو رہا ہے۔” انہوں نے بتایا کہ وفاق پہلی مرتبہ اگلے مالی سال میں خیبرپختونخوا کو 70 ارب روپے کی مکمل ادائیگی کرے گا، جب کہ پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں ماہانہ 3 ارب روپے جاری کیے جا رہے ہیں۔
سرکاری ملازمین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “خیبرپختونخوا کے سرکاری ملازمین تقریباً 30 مختلف الاؤنسز لے رہے ہیں۔ سیکرٹریٹ سے باہر کے ملازمین کے لیے 30 فیصد ڈیسپیرٹی الاؤنس مقرر کیا گیا ہے۔ پولیس اہلکاروں کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے برابر کر دی گئی ہیں اور ان میں مزید 10 فیصد اضافہ بھی شامل ہے۔”
مزمل اسلم نے کہا کہ “خیبرپختونخوا حکومت مالی نظم و ضبط، عوامی فلاح، اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کو اپنی ترجیحات میں اولین رکھے گی۔”