بلوچستان میں واقع ریکو ڈک منصوبہ ملک کی جی ڈی پی میں سالانہ تقریباً ایک فیصد حصہ ڈالے گا، جو کہ اسے ملکی تاریخ کے اہم ترین صنعتی منصوبوں میں سے ایک بناتا ہے۔
نجی خبررساں ادارے دی نیوزانٹرنیشنل کے مطابق وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر توقیر شاہ نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) کی جانب سے 700 ملین ڈالر کی رعایتی فنانسنگ پیکیج کی منظوری اس اعتماد کی مظہر ہے، جو عالمی برادری پاکستان کی معیشت پر دوبارہ بحال کر رہی ہے۔ اس میں 300 ملین ڈالر کا براہ راست قرض اور 400 ملین ڈالر کا “بلینڈڈ فنانس” شامل ہے۔
ڈاکٹر توقیر شاہ کا نجی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ پاکستان میں آئی ایف سی کی پہلی مائننگ سرمایہ کاری ہے اور یہ نہ صرف ایک معاشی پیش رفت ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے اقتصادی امکانات پر بڑھتے ہوئے اعتماد کی علامت بھی ہے۔
ریکو ڈک مائننگ کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے تحت چلنے والا یہ منصوبہ دنیا کی بڑی تانبے کی کانوں میں شمار ہوگا۔ منصوبے میں کینیڈا کی بیرک گولڈ کارپوریشن کا 50 فیصد، جب کہ پاکستان کے تین سرکاری اداروں اور بلوچستان حکومت کا مشترکہ 50 فیصد حصہ ہے۔
منصوبے کی متوقع عمر 40 سال ہے اور ہر سال 2 سے 2.5 لاکھ ٹن تانبہ نکالا جائے گا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے، جب دنیا میں تانبے کی مانگ صاف توانائی کے رجحان اور انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے سبب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

ڈاکٹر توقیر شاہ کے مطابق ریکو ڈک منصوبہ سالانہ 2 ارب ڈالر تک کی معاشی پیداوار دے گا، جو 2024 کی جی ڈی پی کے مطابق تقریباً 1 فیصد بنتی ہے۔ یہ آمدن مکمل طور پر غیر ملکی زرمبادلہ میں ہوگی، جس سے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
منصوبے کی تعمیراتی مرحلے میں 10 ہزار افراد کو روزگار دیا جائے گا، جن میں اکثریت مقامی بلوچ افراد پر مشتمل ہوگی۔ جب منصوبہ مکمل ہو جائے گا تو 3 ہزار مستقل ملازمتیں دی جائیں گی، جب کہ بالواسطہ طور پر ہزاروں دیگر مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
ریکو ڈک کمپنی کی جانب سے 2.5 ملین ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری مقامی انفرا اسٹرکچر، تعلیم، صحت، صاف پانی اور خوراک کی فراہمی کے لیے کی جا چکی ہے۔
اس کے علاوہ کمپنی نے وعدہ کیا ہے کہ تعمیراتی لاگت کا 1 فیصد اور سالانہ آمدن کا 0.4 فیصد مقامی ترقیاتی منصوبوں کے لیے وقف کیا جائے گا۔
آئی ایف سی نہ صرف مالی معاونت فراہم کرے گا بلکہ ماحولیاتی اور سماجی پہلوؤں میں بھی رہنمائی کرے گا تاکہ منصوبہ بین الاقوامی معیار کے مطابق مکمل ہو۔
مزید پڑھیں: سندھ طاس جیسے معاہدے کمزور ہوئے تو علاقائی امن کمزور ہوگا، بلاول بھٹو زرداری
سرکاری ذرائع کے مطابق ریکو ڈک سے کراچی اور گوادر بندرگاہ تک مال بردار ٹرین کی راہداری بنانا پاکستان ریلوے کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ گوادر تک نئی ریلوے لائن کی تعمیر کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔
ایک سینیئر سرکاری ذریعے نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ یہ عالمی سطح کا قدرتی خزانہ ہمیشہ سے وہیں موجود تھا اور تقریباً زمین کی سطح پر ہی تھا، مگر پچھلی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں، غیرسنجیدہ فیصلوں اور بعض اوقات عدالتی مداخلت کی وجہ سے اس خزانے سے قوم دہائیوں تک محروم رہی۔
انہوں نے اسے پاکستان کی تاریخ کا “المناک باب” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی داستان ہے جو بدانتظامی، ناسمجھی اور حکومتی غفلت کی مثال ہے۔