انڈیا کی جانب سے پاکستان پر حملوں اور جواب کے بعد نئی دہلی کی کمزور پوزیشن کی نشاندہی کرنے والے سکیورٹی امور کے ماہر نے فیلڈمارشل عاصم منیر کی موجودگی میں انڈین وزیراعظم مودی کے امریکا جانے سے احتراض کی مختلف وجوہات کی نشاندہی کی ہے۔

پراوین سوہنی نے انڈین حکومت اور دیگر کے اس تاثر کی نفی کی کہ مودی نے ٹرمپ کی دعوت ‘جھٹلائی’ ہے۔
قبل ازیں انڈین دفتر خارجہ بھی یہ کہہ چکا ہے کہ نریندرا مودی کی جی سیون اجلاس کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات طے تھی مگر نہیں ہو سکی۔ امریکا واپسی پر صدر ٹرمپ اور نریندرا مودی کے درمیان 35 منٹ کی ٹیلیفونک گفتگو ہوئی ہے۔
انڈین سکیورٹی ماہر کے مطابق کچھ حقائق ایسے ہیں جو ‘امریکی دورے کو جھٹلانے کے تاثر کے خلاف’ ہیں۔
پراوین سوہنی کے مطابق مودی ایک ایسے وقت میں واشنگٹن میں موجود نہیں رہنا چاہتے تھے جب وہ عاصم منیر وہاں ظہرانے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ موجود تھے۔
صدر ٹرمپ کے لیے پاکستان میں اکلوتے فیصلہ ساز عاصم منیر مودی کے انڈیا سے زیادہ اہم ہیں۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ پاکستان کی ایران سے سرحد ملتی ہے اور یہ ان چار ایٹمی قوتوں (روس، چین، شمالی کوریا، پاکستان) میں سے ہے جنہوں نے ایران کی حمایت کی ہے۔
امریکا کے ساتھ پاکستان کے انسداد دہشت گردی تعلقات طویل المدتی ہیں جو 80 کی دہائی تک جاتے ہیں۔ پاکستان کے جی ایچ کیو اور پینٹاگان کے تعلقات وسیع ہیں۔
انڈین تجزیہ کار کے مطابق مسلم ممالک میں پاکستان اکلوتی ایٹمی قوت ہے جو اسرائیل کی ایران کے خلاف جنگ میں ممکنہ امریکی شمولیت کی صورت میں تہران کی حمایت کرنے والے بیشتر عرب اور مسلم ممالک کے قریب ہے۔پراوین سوہنی کے مطابق پاکستان کے ترکی اور چین کے ساتھ برادرانہ اور مضبوط تعلقات ہیں۔
اپنے تجزیہ میں سکیورٹی ماہر نے مودی سرکار کو مشورہ دیا کہ انہیں تمام پہلوؤں کو پرکھتے ہوئے پاکستان کے متعلق حقیقت پسند ہونا چاہیے۔پراوین سوہنی نے اس امر پر تاسف کا اظہار کیا کہ انڈیا نے آپریشن سندو کے ذریعے پاکستان کی عسکری صلاحیت کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا ہے۔ اس سے پاکستان کا تشخص اب جنوبی ایشیا سے آگے بڑھ چکا ہے۔
اپنے تجزیہ کے اختتام پر انہوں نے ایک مرتبہ پھر مودی سرکار کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان سے متعلق اپنے تخمینے کا دوبارہ جائزہ لے۔