انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کے ذریعےلوگوں کو بلیک میل اور فراڈ کرنے کا رحجان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے آئے روز ایک نئی خبر سننے کو ملتی ہے کہ فلاں بندے کے ساتھ فارڈ یا سکیم ہو گیا، اس طرح کےفراڈ میں زیادہ تر وہ لوگ شکار ہوتے ہیں جو رواں دور میں ہونے والے سائبر کرائم سے بلکل نہ واقف ہوتے ہیں۔
سائبر کرائم کی سہنکڑوں مثالیں ہیں جنہیں انٹرنیشنل نمبرز سے دھمکیاں، فراڈ، اور بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب کچھ ممکن ہو رہا ہے انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کے ذریعے، جو پاکستان میں غیر قانونی طریقے سے اسمگل ہو کر بھتہ خوری اور مالی جرائم کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔
انٹرنیشنل ایکٹیو سمز وہ موبائل سمز ہیں جو بیرون ملک جاری ہوتی ہیں اور ان کا استعمال بین الاقوامی کالز اور انٹرنیٹ سروسز کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ سمز پاکستان میں غیر قانونی طور پر اسمگل کی جاتی ہیں اور مقامی مجرم ان کا استعمال شناخت چھپانے اور قانون سے بچنے کے لیے کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) نے ایک مراسلے کے ذریعے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو آگاہ کیا کہ برطانیہ میں مقیم بعض افراد مسافروں کے ذریعے انٹرنیشنل ایکٹیو سمز پاکستان بھجوا رہے ہیں۔ ان سمز کا استعمال غیر قانونی مقاصد کے لیے کیا جا رہا تھا۔
فیڈرل انوسٹیگیٹواٹھارٹی ( ایف آئی اے )نے لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں ایک کامیاب آپریشن کیا اور چار افراد کو گرفتار کیا۔ گرفتار ہونے والوں میں سعد اشفاق، محمد عاطف، شعیب حیدر، اور جمشید حیدر شامل ہیں۔ ان کے قبضے سے سینکڑوں انٹرنیشنل ایکٹیو سمز برآمد ہوئیں، جنہیں مختلف جرائم میں استعمال کیا جا رہا تھا۔

ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے ان مجرموں سے سینکڑوں انٹرنیشنل ایکٹیو سمز، متعدد موبائل فونز، متاثرین کو کی جانے والی کالز کی ریکارڈنگ اور مجرمانہ سرگرمیوں سے متعلق دیگر شواہد برآمد کیے۔
یہ لوگ اپنے مختلف ذرائع سے برطانیہ کی انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کو منگوا کر پاکستان میں مخصوص سم ڈیلرز کو فروخت کر دیتے تھے ، جو انہیں غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔یہ سمز شناخت چھپانے اور بین الاقوامی کالز کے لیے استعمال کرتے تھے، جس سے مجرموں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچنا آسان ہو جاتا تھا۔
انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کو مختلف قسم کے جرائم میں استعمال کیا جاتا ہے، جن میں متاثرین کو بین الاقوامی نمبرز سے کال کر کے پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ،جعلی آن لائن ٹرانزیکشنز اور ای کامرس کے ذریعے لوگوں سے پیسہ بٹورا جاتا اور ان سمز کا سب سے بڑا فائدہ بلیک میلر اپنی شناخت چھپانے کے لیے کرتے ہیں۔
پاکستان میں انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کے استعمال کو روکنے کے لیے موجودہ قوانین ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، اس نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے بہت سے مسائل درپیش ہیں ، جن میں سائبر کرائم ونگ کے پاس جدید ٹولز اور وسائل کی کمی ،موجودہ سائبر کرائم قوانین میں انٹرنیشنل سمز کے غیر قانونی استعمال پر خصوصی توجہ نہ دینا،شہری انٹرنیشنل کالز اور دھوکہ دہی کی شناخت نہ کر پانا شامل ہیں۔
ان ایکیٹیو سمز سے متاثرین کے مطابق ان سائبر جرائم نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے ہیں ،لاہور کے ایک تاجر نے بتایا کہ انہیں برطانیہ کے ایک نمبر سے کال آئی، جس نے بھتہ دینے کا مطالبہ کیا ،ایک اور متاثرہ خاتون نے کہا کہ ان کی ذاتی معلومات استعمال کر کے جعلی ٹرانزیکشنز کی گئیں، جس سے انہیں مالی اور ذہنی نقصان اٹھانا پڑا۔
دیگر ممالک میں انٹرنیشنل سمز کے غلط استعمال کے خلاف سخت قوانین نافذ ہیں، اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں، انڈیا میں غیر قانونی سمز کے استعمال پر بھاری جرمانے اور 7 سال قید کی سزا دی جاتی ہے، یورپئن ممالک میں بین الاقوامی سمز کی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور اداروں کے درمیان تعاون یقینی بنایا جاتا ہے۔

ماہرین اور حکام کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے چند اقدامات کی ضرورت ہے جن میں سائبر کرائم قوانین میں ترامیم کی جائیں، جس میں انٹرنیشنل سمز کے غیر قانونی استعمال پر سخت سزائیں شامل ہوں ،ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو جدید نگرانی کے آلات فراہم کیے جائیں۔
سائبر کرائم کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ شہریوں کو بین القوامی کالز اور مشکوک سرگرمیوں کی شناخت کے لیے آگاہی مہمات چلائی جائیں،بیرون ملک مقیم نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کے لیے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کے ذریعے ہونے والے جرائم نے پاکستان میں سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ حکومت، ادارے، اور عوام کو مل کر ان جرائم کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی تاکہ مجرموں کے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔