اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے یورپی پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایک جامع اور پُراثر تقریر کی جس میں انہوں نے مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورت حال، اسرائیل، غزہ اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی پر روشنی ڈالی۔ ان کی تقریر کا محور عالمی امن، اصولوں کی بالادستی اور انسانی اقدار کی بحالی پر تھا۔
شاہ عبداللہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ دنیا ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں عالمی نظام انتشار کا شکار ہے، سچائی بدلتی جا رہی ہے، نفرت اور تقسیم کو ہوا دی جا رہی ہے، اور اعتدال پسندی کو کمزور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پانچ سال قبل اسی ایوان سے انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ دنیا میں جاری بڑے تنازعات کا حل تلاش کریں، لیکن اس کے بعد عالمی وبا، نئی سیکیورٹی خطرات، تکنیکی انقلابات، غلط معلومات کی بھرمار، یوکرین میں جنگ، غزہ پر تباہ کن حملے اور ایران میں حالیہ کشیدگی جیسے واقعات نے دنیا کو مزید غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا ہے۔
شاہ عبداللہ نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ طے کریں کہ ہم کون ہیں اور ہم کس کے لیے کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنگیں صرف سرزمین کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ یہ نظریات کی جنگیں ہوتی ہیں جو ہمارے مستقبل کی تشکیل کرتی ہیں، اور یورپ نے اس سچ کو تاریخ سے سیکھا ہے۔ یورپ نے امن اور انسانی وقار کو اپنا شعار بنا کر خود کو ازسرنو تعمیر کیا، اور یہی مثال مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے غزہ کی صورتحال کو عالمی انسانی ضمیر کے لیے چیلنج قرار دیا اور کہا کہ یہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ انسانیت کا امتحان ہے۔ ان کے بقول، اگر عالمی برادری نے فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق، بالخصوص ریاست، خودمختاری اور آزادی کے حقوق سے محروم رکھا تو دنیا اخلاقی تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔
انہوں نے اسرائیلی جارحیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر فلسطینی گھروں، زیتون کے باغات اور بنیادی ڈھانچے کو بلڈوز کیا جاتا رہا تو اس سے صرف فلسطینی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسان متاثر ہوں گے، کیونکہ یہ عمل اخلاقی ضابطوں کو روندنے کے مترادف ہے۔
شاہ عبداللہ نے دو اہم نکات پر زور دیا: پہلا، ترقی کی حمایت، کیونکہ ایک خوشحال مشرق وسطیٰ عالمی خوشحالی کا ضامن ہو سکتا ہے؛ اور دوسرا، عالمی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مربوط، فیصلہ کن اور اصولی اقدامات۔

انہوں نے کہا کہ جب کسی خطے میں امید ختم ہوتی ہے تو اس کے اثرات سرحدوں سے باہر محسوس ہوتے ہیں، اس لیے دنیا کو فلسطین کے مسئلے پر اسی سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا جیسے یوکرین کی جنگ پر کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر عالمی برادری نے اسرائیل فلسطین تنازع کے خاتمے کے لیے اقدامات نہ کیے تو ہم انسانیت کی تعریف بدلنے کے عمل میں داخل ہو جائیں گے۔
انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اس مسئلے کا واحد قابلِ قبول حل ایک منصفانہ امن ہے، جو بین الاقوامی قانون، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور باہمی شناخت کی بنیاد پر ہو۔
اپنی تقریر کے اختتام پر شاہ عبداللہ دوم نے یورپی قیادت سے اپیل کی کہ وہ فیصلہ کن اقدامات کریں، جرات مندانہ فیصلے کریں اور ایک ایسا راستہ اختیار کریں جو انسانیت، انصاف اور دیرپا امن کی طرف لے جائے۔
انہوں نے کہا کہ اردن یورپ کا قابلِ اعتماد شراکت دار ہے، اور موجودہ حالات میں یورپ کی قیادت دنیا کو درست سمت میں لے جا سکتی ہے۔