غزہ میں اسرائیلی فائرنگ اور فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں جمعہ کے روز کم از کم 44 فلسطینی شہید ہو گئے، جن میں بڑی تعداد خوراک کی امداد کے منتظر افراد کی تھی۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی مقامی ہیلتھ اتھارٹی کے مطابق، نیٹزاریم کے جنوب میں واقع ایک امدادی پوائنٹ کے قریب اسرائیلی فائرنگ نے کم از کم 25 افراد کی جان لے لی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی امدادی تنظیمیں اور امریکی حمایت یافتہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن امدادی خوراک کی ترسیل کے لیے متحرک ہیں۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجیوں نے ایک ہجوم میں موجود مشتبہ عسکریت پسندوں پر پہلے انتباہی فائر کیے اور بعد میں فضائی حملے کے ذریعے ان افراد کو نشانہ بنایا۔ تاہم فوج نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ مشتبہ افراد کے ساتھ دیگر شہری بھی زخمی ہوئے ہیں جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب جی ایچ ایف کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ان کے امدادی مرکز پر نہیں ہوا بلکہ اس سے کچھ فاصلے پر پیش آیا۔ اس کے باوجود، حملے کے مقام پر شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی جو مسلسل غذائی قلت کے باعث امداد کے منتظر تھے۔

اسی دن غزہ کے وسطی علاقے دیر البلح میں ایک رہائشی مکان پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں مزید 12 افراد شہید ہوئے اور مجموعی طور پر 19 اموات کی تصدیق ہوئی۔
ادھر اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے غزہ میں پینے کے پانی کی صورتحال کو “انسانی ساختہ خشک سالی” قرار دیا ہے۔
جنیوا میں ادارے کے ترجمان جیمز ایلڈر نے خبردار کیا کہ صاف پانی کی پیداوار کے لیے درکار ایندھن کی قلت کے باعث حالات نازک ترین مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ “پینے کے پانی کی صرف 40 فیصد سہولیات کام کر رہی ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو بچے پیاس سے مرنا شروع ہو جائیں گے۔ ہم موجودہ حالات میں پانی کے عالمی ہنگامی معیار سے کہیں نیچے جا چکے ہیں۔”
یونیسیف نے اپنی رپورٹ میں اپریل سے مئی کے دوران غذائی قلت کا شکار بچوں میں تشویشناک اضافے کی نشاندہی کی ہے، خاص طور پر چھ ماہ سے پانچ سال کے بچوں میں، جن کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس وقت غزہ میں تقریباً پانچ لاکھ افراد شدید بھوک کا شکار ہیں۔