امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دینے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری بحث کے دوران ہی امریکہ نے ایران پر حملہ کر دیا ہے۔ ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات نطنز، اصفہان اور فردو کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکہ سے پہلے اسرائیل بھی ان مقامات پر حملے کر چکا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق بی ٹو بمبار طیاروں نے 6 بنکر بسٹر بم استعمال کیے جبکہ دیگر ایرانی جوہری سائٹس پر حملے کے لیے 30 ٹوماہاک میزائل داغے گئے۔
صدر ٹرمپ نے اس حملے کو غیر معمولی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ حملے ایک شاندار فوجی کامیابی ہیں اور ایران، جو مشرق وسطیٰ کا غنڈہ ہے، اب امن قائم کرے۔
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر ایران امن قائم نہیں کرتا تو مستقبل کے حملے اس سے بھی زیادہ شدید اور آسان ہوں گے۔
تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ نے کانگریس کی منظوری کے بغیر یہ حملے کیے؟ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما نینسی پلوسی نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کانگریس کی منظوری کے بغیر یہ کارروائی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران کی تین بڑی ایٹمی تنصیبات کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کو مبارکباد دی اور کہا کہ آپ کا جرات مندانہ فیصلہ تاریخ بدل دے گا۔ امریکہ کو واقعی کوئی شکست نہیں دے سکا۔برطانوی وزیراعظم نے بھی کہا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
یاد رہے کہ 13 جون سے اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ جاری ہے، جس میں دونوں طرف سے متعدد حملے ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا ہے کہ صورتحال قابو سے باہر جا سکتی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے امریکہ کے حملوں کے سنگین اور دیرپا نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے تمام آپشنز محفوظ رکھتا ہے۔
ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا امریکی صدر کے اس اقدام سے انہیں مواخذے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟