Follw Us on:

کیا امریکا سے انڈینز کی واپسی کے بعد انڈیا مسلمانوں کو زبردستی بنگلہ دیش دھکیل رہا ہے؟

حسیب احمد
حسیب احمد
An island jail in the middle of the sea
انڈیا  کی شمال مشرقی ریاست آسام میں انڈین حکومت کی جانب سے غیر ملکی شہریوں کے خلاف کارروائی کے دوران سینکڑوں مسلمانوں کو زبردستی بنگلہ دیش کی سرحد پر لے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ (تصویر: ہیومن ڑائیٹس واٹچ)

انڈیا  کی شمال مشرقی ریاست آسام میں انڈین حکومت کی جانب سے غیر ملکی شہریوں کے خلاف کارروائی کے دوران سینکڑوں مسلمانوں کو زبردستی بنگلہ دیش کی سرحد پر لے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کے مطابق، مئی سے اب تک تین سو سے زائد مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی سرحد کی جانب ‘پش بیک’ کیا گیا ہے۔

الجزیرہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، آسام کے ضلع موریگاؤں کے گاؤں کویادال سے تعلق رکھنے والے 67 سالہ موٹر سائیکل مکینک، علی کو 23 مئی کو پولیس نے حراست میں لیا اور بعد ازاں انہیں گوپال پاڑا ضلع کے ماتیہ میں واقع غیر قانونی تارکین وطن کے مرکز منتقل کر دیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین روز بعد 27 مئی کو علی سمیت 13 دیگر افراد کو بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکاروں نے بنگلہ دیش کی سرحد پر لے جا کر چھوڑ دیا۔

علی نے الجزیرہ کو بتایا کہ، بی ایس ایف ہمیں دوسری طرف دھکیل رہی تھی، لیکن بی جی بی اور مقامی افراد کہہ رہے تھے کہ ہم انڈین  شہری ہیں اور ہمیں قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان افراد نے بارہ گھنٹے نو مینز لینڈ میں کیچڑ اور پانی میں گزارے، خوراک یا پناہ کے بغیر۔

Bhasan char and refugee
ایک مقامی صحافی جیتن چندر داس نے بتایا کہ انہوں نے بی ایس ایف اہلکاروں کو ربڑ کی گولیاں چلاتے اور فضا میں چار گولیاں فائر کرتے دیکھا۔ ( دی ڈپلومٹ)

متعدد افراد نے الزام عائد کیا کہ بی ایس ایف نے ان پر ربڑ کی گولیاں برسائیں اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایک خاتون، رحیمہ بیگم، نے بتایا کہ بنگلہ دیشی اہلکاروں نے انہیں مارا جب وہ سرحد پار کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

ایک مقامی صحافی جیتن چندر داس نے بتایا کہ انہوں نے بی ایس ایف اہلکاروں کو ربڑ کی گولیاں چلاتے اور فضا میں چار گولیاں فائر کرتے دیکھا۔ تاہم، 27 مئی کو بی ایس ایف نے جاری کردہ بیان میں ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ وہ صرف بنگلہ دیشی شہریوں کو غیر قانونی داخلے سے روک رہے تھے۔

مئی کے آخر میں بی جی بی نے بی ایس ایف کے حوالے 65 مبینہ انڈین شہریوں کو واپس کیا۔ متعدد افراد نے دعویٰ کیا کہ انہیں سادہ لباس میں موجود بھارتی اہلکاروں نے ہائی وے پر چھوڑ دیا۔

ماہرین کے مطابق، یہ کارروائی دراصل زبردستی اخراج کے زمرے میں آتی ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ نے کارروائی کو 1950 کے قانون کے تحت درست قرار دیا، لیکن انسانی حقوق کے کارکن اولی اللہ لَسکر نے کہا کہ یہ قانون صرف ان افراد پر لاگو ہوتا ہے جو غیر قانونی طور پر  انڈیا میں داخل ہوتے ہیں۔

Bangladeshi and rohingya refugees
اس مہم کے دوران مہاراشٹرا اور گجرات جیسی دیگر بی جے پی حکومتی ریاستوں میں بھی مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر بنگلہ دیش کی سرحد پر لے جانے کی کوشش کی گئی۔ ( تصویر: دی ٹیلی گراف)

اپوزیشن جماعتوں اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے الزام عائد کیا کہ کارروائی کا ہدف صرف مسلمان ہیں۔ کانگریس کے رہنما دیبابرتا سیکیا نے کہا کہ انہوں نے صرف مسلمانوں کو ماتیہ سے نکالا ہے۔

آسام کی متنازع نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز فہرست میں دو ملین افراد شامل نہیں کیے گئے، جن میں سات لاکھ مسلمان شامل تھے۔ متعدد افراد کو معمولی دستاویزی غلطیوں کی بنیاد پر غیر ملکی قرار دے دیا گیا، جیسے کہ علی کے والد کا نام مختلف دستاویزات میں مختلف انداز سے درج تھا۔

اس مہم کے دوران مہاراشٹرا اور گجرات جیسی دیگر بی جے پی حکومتی ریاستوں میں بھی مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر بنگلہ دیش کی سرحد پر لے جانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم، کچھ افراد کو ریاست مغربی بنگال کے حکام کی مداخلت سے واپس لایا گیا۔

بنگلہ دیش کے ہائی کمیشن کے ترجمان فیصل محمود کے مطابق، بنگلہ دیشی حکومت نے انڈین حکومت کو سفارتی نوٹ بھیجا ہے اور بتایا ہے کہ بی ایس ایف کی یہ کارروائیاں مناسب عمل کے بغیر کی جا رہی ہیں۔

Author

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس