اپوزیشن لیڈر اور ایم سی سیف الدین ایڈوکیٹ نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کا سالانہ شیڈو بجٹ پیش کیا ہے، جس میں سابق میئر نعمت اللہ خان کی میئرشپ میں جاری متعدد ترقیاتی منصوبوں پر تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں کراچی کے میگا پروجیکٹس، سڑک سازی اور شاہراہوں کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے، تاہم سیف الدین کے مطابق اس رقم کا شہر کی عام عوام پر کوئی محسوس اثر نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ سالوں میں کے ایم سی کا بجٹ ویژن لیس تھا، اس سال بھی صورتحال یہی ہے۔ شیڈو بجٹ اجلاس کراچی میں ہوا، جس میں شہر کے تمام اضلاع اور ٹاؤنز میں ضروری سہولتوں اور بنیادی ڈھانچے کی صورتحال زیر بحث آئی۔

کراچی میں 42 نالوں پر کچرے کی تہیں جمع ہیں، 106 سڑکوں کی دیکھ بھال کے ایم سی کے پاس ہے، اور فائر بریگیڈ ادارہ ناکارہ پایا گیا ہے۔ ہر ضلع میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم اور ہر ٹاؤن میں فائر اسٹیشن کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ مزید براں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو مافیا کہا اور کے ایم سی کو اس کے سامنے بے بس قرار دیا گیا۔
اس کے علاوہ سیف الدین نے مطالبہ کیا کہ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل یونیورسٹی کی فیسوں میں کمی کی جائے تاکہ زیادہ طلبا مستفید ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ کے ایم ڈی سی کی فیسوں میں کمی کی جائے۔

شیڈو بجٹ میں اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہر یونین کونسل کو 3 کروڑ روپے، ہسپتالوں کی ترقی کے لیے ڈیڑھ ارب روپے، اور عباسی شہید ہسپتال کو ماڈل ہسپتال بنانے کے لیے فنڈز دیے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ عباسی شہید ہسپتال کے وارڈ میں چوہے دوڑتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی ڈیڑھ سال سے کریم آباد انڈر پاس نہیں بنا سکی اور بی آر ٹی کے نام پر شہر کا بیڑہ غرق کردیا گیا۔ انہوں نے بے ٹینڈر اسکیموں پر تنقید کی، کہا کلک کے پروجیکٹس چار گنا مہنگے بنائے گئے اور چار ارب روپے ریئن ایمرجنسی پر خرچ کیے گئے، جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
سیف الدین نے بتایا کہ نو سال تک الیکٹرک بل میں ایم یو سی ٹی چارجز لگائے گئے، جنہیں ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اپوزیشن جماعتوں کے لیے بجٹ میں کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں رکھا گیا، اور جماعت اسلامی کے پاس 85 یونین کونسلز کے باوجود انہیں فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔
اپوزیشن لیڈر نے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کو اختیاری شہری حکومت دی جائے اور ساری اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر شہر کی ترقی کی جائے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ “ہم وژن 2025 سے 2030 پیش کر رہے ہیں” اور مطالبہ کیا ہے کہ گاربیج ٹرانسفر سینٹر آٹھ مقامات پر بنائے جائیں اور کراچی کی کچی آبادیوں کی تعمیر نو شروع کی جائے۔