Follw Us on:

ٹرمپ کا ایران اسرائیل جنگ بندی کا اعلان، مشرقِ وسطیٰ میں عارضی امن یا مستقل حل؟

احسان خان
احسان خان
Iran america
ٹرمپ کا ایران اسرائیل جنگ بندی کا اعلان، مشرقِ وسطیٰ میں عارضی امن یا مستقل حل؟( فائل فوٹو)

ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی حالیہ ہفتوں میں انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اسرائیل نے ایران کے فوجی اہداف کو نشانہ بنایا، جس کے ردِعمل میں ایران نے اسرائیلی تنصیبات پر حملے کیے۔ اس دوران امریکا نے ایران پر عسکری حملہ کیا، جس کے جواب میں ایران نے قطر میں موجود امریکی اڈوں پر حملہ کیا۔ ان حملوں نے نہ صرف خلیجی خطے کو غیر معمولی خطرات سے دوچار کیا بلکہ عالمی سطح پر ایک بڑی جنگ کے خدشات کو بھی جنم دیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک غیر متوقع طور پر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا ہے جسے سیاسی بیان بھی کہا جا رہا ہے اس حوالے سے ماہر عالمی امور پروفیسر داکٹر فرمان علی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کا جنگ بندی کا بیان بظاہر ایک سفارتی پیش رفت لگتا ہے لیکن اسے زیادہ تر مبصرین انتخابی سیاست اور امریکی داخلی دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ ٹرمپ ماضی میں بھی ایسے بیانات دے چکے ہیں جن کا عملی نتیجہ محدود رہا ہے۔ یہ اعلان بین الاقوامی ثالثی سے زیادہ میڈیا بیانیہ معلوم ہوتا ہے۔

ٹرمپ کے  اعلان کے باوجود دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف محدود حملے جاری رکھے، جس پر صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ٹیلیفونک گفتگو میں سخت ناراضی کا اظہار بھی کیا اور اب بھی اسرائیل کی طرف سے جارحیت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

Iran war
ٹرمپ کے  اعلان کے باوجود دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف محدود حملے جاری رکھے( فائل فوٹو)

پروفیسر ڈاکٹر فرمان علی نے کہا کہ اسرائیل کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جنگ بندی کا اعلان اکثر وقتی حکمت عملی ہوتا ہے تاکہ بین الاقوامی دباؤ کو کم کیا جا سکے۔ جب تک اسے سیکیورٹی خطرات محسوس ہوتے رہیں گے وہ جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا رہے گا۔ جنگ بندی کا تسلسل ایران کے ردِعمل پر بھی منحصر ہوگا۔

اسرائیل کے ایران پر حملے کو امریکی حمایت کہا جا رہا ہے اس حوالے سے فرمان علی نے کہا کہ اسرائیلی حملے اکثر امریکی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوتے۔ اگرچہ باضابطہ اجازت نہ ہو لیکن خاموش حمایت یا پیشگی اطلاع کا امکان زیادہ ہے۔ مقامی خطرات اسرائیل کے لیے جواز بنتے ہیں مگر اصل پیغام واشنگٹن سے آتا ہے۔

ایران اور قطر اسلامی ممالک ہونے کے باوجود اس جنگ کا براہ راست حصہ بن گئے ہیں، جس سے ان ممالک میں مزید کشیدگی میں اضافہ ہو گا اس حوالے سے پروفیسر میاں محمد معیز نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران کا قطر میں امریکی اڈے پر حملہ قطر کو دو طرفہ دباؤ میں لے آیا ہے۔ ایک طرف اسے امریکا  کا اتحادی رہنا ہے تو دوسری طرف ایران کے ساتھ ہمسائیگی کے ناطے تعلقات بھی بگاڑنا نہیں چاہتا۔ قطر کی غیر جانبدار خارجہ پالیسی کو اس واقعے نے کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔

عرب دنیا، خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے ایران کی کارروائیوں کو علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دیا، جس سے اسلامی دنیا میں فرقہ وارانہ کشیدگی مزید گہری ہو گئی ہے۔

American airbas

میاں محمد معیز کا کہنا ہے کہ کئی عرب ممالک جیسے سعودی عرب اور بحرین پہلے ہی ایران مخالف بلاک کا حصہ ہیں۔ تاہم براہِ راست جنگ میں کودنا ان کے لیے سیاسی اور معاشی طور پر خطرناک ہو سکتا ہے۔ ان ممالک کا جھکاؤ تو ایران مخالف ہے لیکن وہ کوشش کریں گے کہ جنگ میں براہِ راست شامل نہ ہوں۔

اگرچہ جنگ بندی کے بعد کچھ وقتی سکون نظر آیا، مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ کشیدگی کی جڑیں بدستور موجود ہیں۔ نہ ایران نے اپنے عزائم میں نرمی دکھائی ہے اور نہ ہی اسرائیل نے مکمل طور پر حملے روکنے کا عندیہ دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین نے اس اقدام کو مثبت مگر ناپائیدار قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ مستقل امن کے لیے باقاعدہ مذاکراتی عمل فوری شروع کیا جائے۔

یہ بھی پرھیں:اسرائیل ایران جنگ بندی، ایرانی تازہ حملے میں چار افراد ہلاک، اسرائیل کا جواب دینے کا اعلان

صورتحال کا ایک اور تشویشناک پہلو ایران کا جوہری پروگرام ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، ممکن ہے ایران کشیدگی کے ماحول کو اپنی جوہری سرگرمیوں کے لیے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرے۔ ایران کی جانب سے اس پر کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا، لیکن مغربی طاقتیں اس حوالے سے نہایت فکرمند ہیں۔

میاں محمد معیز نے ایران میں جوہری پروگرام پر بات کرتے ہوئے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ ایران وقتی طور پر دباؤ کا شکار ہے لیکن اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر رُکنے والا نہیں۔ جنگ بندی سے ایران کو سانس لینے کا موقع ملے گا اور وہ اپنی جوہری پیش رفت کو پسِ پردہ جاری رکھ سکتا ہے۔ البتہ بین الاقوامی معائنے کی شرائط سخت ہو سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں:جوہری تنصیبات پر حملوں کے باوجود پروگرام جاری، نقصان کا پہلے ہی اندازہ تھا، ایران

ٹرمپ کا جنگ بندی کا اعلان ایک وقتی ریلیف ضرور ہے، مگر مشرقِ وسطیٰ میں مستقل امن کے لیے اس سے کہیں زیادہ درکار ہے۔ خطے کے ممالک کو اپنے جیوپولیٹیکل مفادات، سیکیورٹی خدشات اور داخلی سیاسی دباؤ کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوگا۔ صرف فائر بندی نہیں، بلکہ اعتماد سازی، مشترکہ مکالمہ، علاقائی تعاون اور عالمی ضامنوں کی فعال موجودگی ہی پائیدار امن کی بنیاد ڈال سکتی ہے۔ ورنہ یہ جنگ بندی محض ایک عارضی وقفہ ثابت ہوگی، جس کے بعد ایک وسیع تر جنگ کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔

Author

احسان خان

احسان خان

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس