امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ غزہ میں اگلے ہفتے کے دوران جنگ بندی ممکن ہو سکتی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، جب اُن سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی متوقع تاریخ کے بارے میں پوچھا گیا تو ٹرمپ نے کہا، “ہمارے خیال میں اگلے ہفتے کے اندر جنگ بندی ہو جائے گی۔”
اس سے قبل سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے دور میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پایا تھا، جو ٹرمپ کی ٹیم کی معاونت سے ممکن ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: تین سال بعد ملک میں پہلی سزائے موت، یہ جاپانی مجرم کون تھا؟
تاہم، مارچ میں اسرائیل نے حماس پر دوبارہ حملے شروع کر کے اس جنگ بندی کو ختم کر دیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں دو ماہ تک خوراک اور امدادی سامان کی ترسیل بند کر دی، جس پر قحط کے خطرے کی وارننگز سامنے آئیں۔
بعد ازاں، ایک متنازع تنظیم “غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن” (جی ایچ ایف)، جو امریکا اور اسرائیل کی حمایت یافتہ ہے، نے اسرائیلی فوج کی نگرانی میں امداد کی تقسیم کا آغاز کیا۔

لیکن اس نظام پر شدید تنقید سامنے آئی۔ اقوام متحدہ نے جمعے کو خبردار کیا کہ اس نظام کے باعث امداد لینے کے لیے پہنچنے والے شہری مارے جا رہے ہیں۔ اس پر اسرائیل نے اقوام متحدہ پر الزام عائد کیا کہ وہ خود کو حماس کے ساتھ ملا رہی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں خوراک کی تقسیم کے مراکز کے قریب فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ مقامی حکام اور عینی شاہدین کے مطابق سینکڑوں افراد شہید ہو چکے ہیں، تاہم اسرائیلی فوج نے ان الزامات کی تردید کی ہے، اور جی ایچ ایف نے بھی ہلاکتوں کے کسی واقعے کی تصدیق نہیں کی۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی امور کے سربراہ فلپ لازارنی نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر لکھا کہ خوراک کی تقسیم کا موجودہ نظام قتل و غارت کا منظر پیش کر رہا ہے اور یہ فوری طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں تبدیل ہونا چاہیے۔
حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ صرف مئی کے آخر سے اب تک امدادی مراکز کے اطراف میں 500 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ “لوگ خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، خوراک کی تلاش موت کی سزا نہیں ہونی چاہیے۔”