پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب وفاقی حکومت قومی اسمبلی میں ’پیکا ایکٹ‘ میں ترامیم کا بل پیش کرچکی ہے، خواجہ محمد آصف کہا کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا اسٹودیوز آگے پیچھے سے چیزیں مانگ کر بنائے جاتے ہیں۔
یاد رہے یہ بیان تب دیا گیا جب ایک طرف پاکستان میں پیکا ایکٹ میں ترمیم ہوئی ہے اور ماہرین سمیت سوشل میڈیا صارفین بھی اس ایکٹ پر سوالات اٹھارہے ہیں۔ دوسری جانب سابق وزیر اعظم عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
پاکستان میں شعبہِ صحافت پہلے ہی لاتعداد پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ مگر شاید حکومت اس شعبے کو سانسیں لیتا دیکھنا نہیں چاہتی۔ ہیومن رائیٹس کمیشن نے 2022 سے 2024 تک آزادیِ اظہارِ رائے کی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ان سالوں میں پاکستان میں صحافت پر بہت سی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
ہیومن رائیٹس کمیشن کے مطابق گزشتہ سال ایک صحافی کا قتل ہوا جب کہ متعدد صحافی لا پتہ ہوئے جن میں سے کچھ ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ ریاست نے مین اسٹریم میڈیا پر پابندیاں لگا کر تقریباً خاموش کروا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام اور میڈیا مالکان تیزی سے ڈیجیٹل میڈیا کی جانب آرہے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اظہار رائے کی آزادی کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ حکومتی اراکین اسمبلیوں میں کالے قانون بنا رہے ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہا ہے کہ “میڈیا مالکان کو آزادی صحافت کا خیال رکھنا چاہیئے، سیاستدان تو میڈیا کا آسان ہدف ہیں”۔
انہوں نے مزید کہا “صحافت کی آزادی بہت ضروری ہے، ہم سب کے لیے ایمانداری بہت ضروری ہے، صحافتی آزادی کی جنگ میں آپ کے ساتھ ہوں”۔
وزیردفاع نے مزید کہا کہ “سیاست کے ساتھ صحافت میں دوغلا پن چلتا رہا تو یہ سب نہیں چلے گا، صحافتی اداروں کے مالکان کو دوہرا معیار ختم کرنا ہوگا۔ میں ان سب سے کہوں گا کہ اپنے گریبان مین بھی جھانکیں ۔ اداروں میں دوغلا پن کسی صورت نہیں ہونا چاہیئے”۔
نیوزکانفرنس کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ” آزادی صحافت کا مطلب ایک ستون کو مضبوط کرنا ہے، پی ٹی آئی دور میں ہم سب جیل میں تھے۔ پی ٹی آئی دورمیں لوگ ٹی وی پر بیٹھ کرجھوٹے الزامات لگاتے تھے”۔
رہنما ن لیگ کا مزید کہنا تھا کہ “القادریونیورسٹی، یونیورسٹی نہیں، القادرٹرسٹ کے نام 438 ایکڑ زمین ہے، القادر ٹرسٹ پربھی مکمل تحقیقات درکار ہیں، میڈیا کو کہہ رہا ہوں کہ دوہرا معیارختم کرے”۔