دنیا کے معروف ترین ارب پتی اور ٹیسلا کے بانی ایلن مسک ایک بار پھر عالمی خبروں کی زینت بن گئے ہیں، مگر اس بار وجہ ان کی کوئی نئی ایجاد نہیں بلکہ براہِ راست امریکی سیاست میں مداخلت ہے۔ اس بار ان کا نشانہ امریکی حکمران جماعت ریپبلکن پارٹی بنی، جس کی پالیسیوں پر انہوں نے شدید تنقید کی ہے۔
یہ ہنگامہ اُس وقت شروع ہوا، جب امریکی کانگریس میں پیش کیے گئے ایک متنازع بجٹ بل کی حمایت کرنے والے قانون سازوں کو مسک نے للکارا اور ان پر الزام لگایا کہ وہ اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ کر ملکی قرضوں میں خطرناک حد تک اضافہ کر رہے ہیں۔
ایلن مسک نے واضح الفاظ میں کہا کہ یہ بل امریکی معیشت کو “قرض غلامی” کی طرف دھکیل رہا ہے اور اگر یہ بل منظور ہوا تو وہ ان قانون سازوں کو اگلے سال پرائمری انتخابات میں شکست دیں گے، خواہ یہ ان کی زندگی کا آخری مشن ہی کیوں نہ ہو۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے “امریکا پارٹی” کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا عندیہ دیا، جوموجودہ ڈیموکریٹ-ریپبلکن اتحاد یعنی “یونی پارٹی” کا متبادل ہوگی۔

واضح رہے کہ ایلن مسک کی اس کھلی تنقید پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شدید ردعمل دیا۔ انہوں نے اپنے ایک سوشل میڈیا پیغام میں لکھا کہ ایلن مسک تاریخ کا سب سے بڑا سبسڈی وصول کرنے والا شخص ہے اور اگر اسے اربوں ڈالر کی سبسڈیز نہ ملتیں تو شاید وہ جنوبی افریقہ واپس جا چکا ہوتا۔
امریکی صدر نے مطالبہ کیا کہ امریکی حکومتی ادارہ ڈوج مسک کی کمپنیوں کا آڈٹ کرے تاکہ معلوم ہو سکے کہ سرکاری فنڈز کہاں استعمال ہوئے۔ جس کے جواب میں مسک نے “ایکس” (سابق ٹوئٹر) پر لکھا کہ میں تو کہتا ہوں کہ سب کچھ ابھی کاٹ دو، یعنی وہ سبسڈی کے خاتمے اور مکمل احتساب کے لیے بھی تیار ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ ایلن مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کبھی قریبی سیاسی اتحادی سمجھے جاتے تھے۔ رپورٹس کے مطابق 2024 کی صدارتی انتخابی مہم میں مسک نے ریپبلکن پارٹی کو 250 سے 300 ملین ڈالر تک کی فنڈنگ فراہم کی تھی اور حکومتی اخراجات میں 190 ارب ڈالر کی کٹوتی پر بھی اثرانداز ہوئے حالانکہ اس کا بوجھ امریکی ٹیکس دہندگان کو 135 ارب ڈالر میں پڑا۔
جون 2024 میں مسک نے اچانک ٹرمپ کے حمایت یافتہ بجٹ بل کو “قابل نفرت” قرار دیا اور اس کے خلاف بھرپور مہم شروع کر دی۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں بل کو “ون بگ بیوٹیفل بل” اور ریپبلکن-ڈیموکریٹ اتحاد کو “پورکی پگ پارٹی” کہا۔
مسک کا کہنا تھا کہ امریکی عوام کے نام پر کیے گئے وعدے دھوکہ بن چکے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ایک نئی سیاسی طاقت سامنے آئے جو واقعی عوام کی نمائندگی کرے۔ اس تنازع کے معاشی اثرات بھی فوری طور پر ظاہر ہوئے، صرف 5 جون کو ٹیسلا کی مارکیٹ ویلیو میں 150 ارب ڈالر کی کمی دیکھی گئی، اگرچہ بعد میں یہ کچھ بحال ہو گئی، لیکن اس سے یہ واضح ہو گیا کہ سیاسی بیانات کا براہ راست اثر کاروبار پر بھی پڑ سکتا ہے۔

اس تمام تر ہنگامے کی ٹائم لائن پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 3 جون کو ایلن مسک نے ٹرمپ کے منصوبے کو “قرض غلامی بل” قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔ 5 جون کو مارکیٹ ویلیو گری اور ٹرمپ نے مسک پر ڈیموکریٹس کو خفیہ فنڈنگ دینے کا الزام لگا دیا۔
6 جون کو مسک نے ریپبلکن قانون سازوں کو اگلے انتخابات میں شکست دینے کی دھمکی دی اور ساتھ ہی “امریکا پارٹی” کے قیام کا اعلان بھی کیا۔ یکم جولائی کو ٹرمپ نے ڈوج کو آڈٹ کا مطالبہ دیا جس پر مسک نے جواباً سب کچھ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔