امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کے معاہدے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ انہوں نے حماس پر زور دیا کہ وہ اس معاہدے کو قبول کرے، بصورتِ دیگر حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات متوقع ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ ان کے نمائندے نے اسرائیلی حکام سے طویل اور مثبت ملاقات کی ہے جس کے نتیجے میں جنگ بندی کے لیے درکار شرائط پر اتفاق ہو گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس دوران تمام فریقوں سے جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت کی جائے گی، جبکہ قطر اور مصر اس معاہدے کے لیے حتمی تجاویز پیش کریں گے۔
ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے حماس اس معاہدے کو تسلیم کرے گی، کیونکہ ان کے بقول “حالات بہتر نہیں ہوں گے بلکہ مزید بگڑ سکتے ہیں۔”

دوسری جانب اسرائیلی وزیر برائے اسٹریٹیجک امور ران ڈرمر واشنگٹن میں موجود ہیں جہاں وہ ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان کے نائب صدر جے ڈی وانس، سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو اور مشیر سٹیو وٹکاف سے بھی بات چیت متوقع ہے۔
150 سے زائد عالمی امدادی تنظیموں نے غزہ میں امریکی اور اسرائیلی سرپرستی میں قائم امدادی تقسیم کے متنازع نظام کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان تنظیموں میں آکسفیم، سیو دا چلڈرن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل شامل ہیں، جنہوں نے غزہ میں امداد کی ترسیل کے دوران پیش آنے والی ہلاکتوں پر تشویش ظاہر کی ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے خبردار کیا ہے کہ یمن کی جانب سے فائر کیے گئے میزائلوں کا سخت جواب دیا جائے گا۔ اسرائیل میں مختلف علاقوں میں سائرن بجنے کی اطلاعات ہیں جبکہ غزہ سے داغے گئے دو میزائلوں کو اسرائیلی دفاعی نظام نے فضا میں ہی ناکام بنا دیا۔
یہ میزائل حملہ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ 12 روزہ جنگ کے بعد یمن سے اسرائیل پر پہلا حملہ ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ اگر یمن نے جارحیت جاری رکھی تو اسے بھی ایران جیسے انجام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ادھر حوثی رہنما نصرالدین عامر نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک غزہ کے عوام کی حمایت جاری رکھے گا جب تک کہ اسرائیلی حملے بند اور محاصرہ ختم نہیں ہوتا۔