Follw Us on:

مہنگائی، ٹیکسوں کی بھرمار: ’آئی ایم ایف کی شرائط نے پاکستان کی معاشی خودمختاری کو محدود کر دیا‘

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Imf
آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور ناگزیر قومی خودمختاری، کیا مہنگائی 2025 کا سب سے بڑا بحران بنے گی؟( فائل فوٹو)

پاکستان کی معاشی پالیسیوں کا محور اب صرف ملکی ضروریات نہیں بلکہ عالمی شرائط بن چکی ہیں۔ ہر بجٹ، ہر ریفارم اور ہر سبسڈی یا اس کا خاتمہ،سب کچھ آئی ایم ایف کی منظوری سے مشروط ہے۔

بجلی کے نرخ بڑھیں یا پیٹرول پر سبسڈی ختم ہو، ٹیکس  کم کیے جائیں یا پھر بڑھائیں جائیں اس میں آئی ایم ایف کی شرائط کو مد نظر  رکھنا  ضروری ہے۔

اس معاشی انحصار نے صرف عوام کی زندگی اجیرن نہیں کی بلکہ پاکستان کی خودمختاری کو بھی ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے متوسط طبقے کو کچل کر رکھ دیا ہے، جس سے پاکستان میں مہنگائی بحران روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر عالمی امور پروفیسر محمد سراج نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط نے پاکستان کی معاشی خودمختاری کو کسی حد تک محدود کر دیا ہے، کیونکہ پالیسی سازی میں ملکی ترجیحات کے بجائے عالمی مالیاتی ادارے کی ہدایات پر عمل ضروری ہو گیا ہے۔

بجٹ، سبسڈی اور ریونیو اصلاحات جیسے فیصلے اب زیادہ تر آئی ایم ایف کی منظوری سے مشروط نظر آتے ہیں، جو خودمختار پالیسی اختیار کو متاثر کرتا ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کو قرضہ دینے کے عوض جو شرائط رکھی جاتی ہیں،جس سے بجلی، گیس، پیٹرول اور دیگر ضروری اشیاء میں ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں

پروفیسر سراج کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے ٹیکس مہنگائی کے اسباب میں سے ایک ہیں لیکن یہ مہنگائی کا واحد یا سب سے بڑا محرک نہیں۔ روپے کی قدر میں کمی، درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، توانائی کی بلند لاگت اور سپلائی چین کے مسائل بھی مہنگائی کو بڑھا رہے ہیں۔ البتہ ٹیکس میں اضافہ اشیاء کی قیمتوں پر اضافی بوجھ ضرور ڈالتا ہے۔

Protest
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کو قرضہ دینے کے عوض جو شرائط رکھی جاتی ہیں( فائل فوٹو)

آئی ایم ایف کی شرائط کا اثر براہ راست عام آدمی پڑتا ہے اگر اصلاحات کا تمام بوجھ صرف عوام پر ڈال دیا جائے اور طاقتور طبقوں سے کوئی قربانی نہ لی جائے، تو یہ پالیسیاں پائیدار نہیں ہو سکتیں۔

 محمد سراج نے کہا کہ مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر نچلا اور متوسط طبقہ برداشت کرتا ہے، کیونکہ ان کی آمدنی محدود ہوتی ہے جبکہ روزمرہ اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے ان کا معیارِ زندگی شدید متاثر ہوتا ہے۔ غربت میں اضافہ اور بنیادی ضروریات تک رسائی میں کمی واقع ہوتی ہے۔

پاکستان کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کب تک عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار جاری رکھے گا۔ کیا ہم اپنی معاشی سمت خود طے کر سکیں گے؟ یا ہر بجٹ، ہر پالیسی اور ہر سبسڈی کا فیصلہ ان اداروں  کی فائلوں سے مشروط رہے گا؟

اس حوالے سےماہر عالمی امور  ڈاکٹر رائے عبدالرحمان نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  فی الحال پاکستان کے مالیاتی نظام کی کمزوریاں اور زر مبادلہ کے ذخائر کی کمی اسے آئی ایم ایف کا محتاج بناتی ہیں، مگر برآمدات میں اضافہ، ٹیکس نیٹ کی توسیع اور مقامی وسائل کو بہتر انداز میں بروئے کار لا کر متبادل پالیسیاں اپنائی جا سکتی ہیں۔

اصلاحات کا مطلب صرف ٹیکس لینا نہیں بلکہ ریاستی خرچ میں کمی، ادارہ جاتی اصلاحات اور کرپشن کا خاتمہ بھی ہونا چاہیے، جو بدقسمتی سے ترجیحات میں شامل نہیں ہیں، اگر ایسا ممکن ہو گا تو مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

رائے عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو درآمدات پر انحصار کم کر کے مقامی پیداوار کو فروغ دینا، کرپشن کا خاتمہ، ٹیکس اصلاحات، توانائی کے شعبے میں خود کفالت اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا تاکہ خود انحصاری کی بنیاد پر بین الاقوامی دباؤ سے بچا جا سکے۔

انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ  ٹیکس نیٹ کی توسیع اگر منصفانہ اور مؤثر انداز میں کی جائے تو عام آدمی کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے حکومتی آمدنی بڑھے گی اور عوامی خدمات پر انحصار کم ہوگا۔ البتہ اگر صرف تنخواہ دار طبقے یا غریب طبقے پر بوجھ ڈالا گیا تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور مہنگائی کا دائرہ مزید وسیع ہو۔

Imf 2
ٹیکس بڑھنے اور مہنگائی کے بحران کی وجہ سے ہر سال عوام احتجاج کرتی ہے مگر کوئی لائحہ عمل نہیں اپنایا جاتا ہے( فائل فوٹو)

آئی ایم ایف کی شرائط کو اکثر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، مگر کچھ ماہرین اسے مالی نظم و ضبط اور معاشی بحالی کا ایک لازمی حصہ بھی قرار دیتے ہیں،بشرطیکہ ان پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:’آئی ایم ایف کی شرائط‘، حکومت نے گیس 50 فیصد مہنگی کرنے کی منظوری دے دی

رائے عبدالرحمان کا ماننا ہے کہ اگرچہ آئی ایم ایف کی شرائط وقتی طور پر عوام پر بوجھ ڈالتی ہیں، مگر طویل مدتی طور پر یہ مالی نظم و ضبط، بجٹ خسارے میں کمی اور معیشت کی پائیداری کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہیں۔ بشرطیکہ حکومت ان شرائط پر عمل کرتے ہوئے مقامی معیشت کو مستحکم بنانے کی جامع حکمت عملی اپنائے اور اصلاحات میں شفافیت کو یقینی بنائے۔

2025 میں مہنگائی کے سنگین اثرات صرف اقتصادی حد تک محدود نہیں رہ سکتے، بلکہ یہ سیاسی اور سماجی سطح پر بھی بے چینی پیدا کر سکتے ہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ ایک ہمہ جہت بحران بن سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:‘قبضہ میئر کو صرف ٹیکس چاہیے’، سوشل میڈیا پر انوکھا ٹرینڈ چل پڑا

رائے عبدالرحمان کے مطابق اگر مہنگائی پر قابو نہ پایا گیا تو یہ عوامی بے چینی، احتجاج، حکومتی عدم استحکام اور سیاسی افراتفری کو جنم دے سکتی ہے، جو سماجی انتشار کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ مہنگائی معاشی بحران کو سیاسی بحران میں تبدیل کر سکتی ہے۔

حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے زرعی پیداوار بڑھانے اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں استحکام، ڈالر کی ذخیرہ اندوزی روکنا اور سستے قرضوں کی فراہمی جیسے اقدامات بھی ضروری ہیں تاکہ عام آدمی کی قوت خرید بحال کی جا سکے۔

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس