Follw Us on:

بے حسوں کے قبرستان لاہور میں 68 افراد کی خود کشی کا نوحہ

خالد شہزاد فاروقی
خالد شہزاد فاروقی

نجی ٹی وی کے انتہائی دبنگ رپورٹر اور پنجاب حکومت کی آنکھ میں کھٹکنے والے ہمارے کولیگ اور دوست محمد عمیر نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر اپنے ایک ٹویٹ میں رپورٹ کیا ہے کہ ”لاہور میں رواں سال معاشی حالات، گریلو جھگڑوں اور دیگر وجوہات کی بناء پر اب تک 68 افراد  نے خود کشی کی ہے، خودکشی کرنے والوں میں 44 مرد اور 24 خواتین شامل ہیں“۔ اس ٹویٹ کو پڑھنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ یہ کوئی افسانہ نہیں، کوئی تمثیل نہیں، کوئی جذباتی ناول کا کردار نہیں۔ یہ لاہور کے وہ باسی ہیں جنہوں  نے رواں سال میں معاشی بدحالی،  روز گار کے سائے کے معدوم ہونے، پیٹ کی آگ اور سماج کے طعنوں سے تنگ آ کر زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ 68 انسان، 68 سانسیں، 68 خواب، 68 کہانیاں۔ اور ہم سب تماشائی۔ نہ ہم  نے کسی کی چیخ سنی، نہ کسی کے آنسو محسوس کیے، نہ کسی کے اندر کے ٹوٹنے کی آواز پر کان دھرا۔

 لاہور، جو کل تک زندہ دلوں کا شہر کہلاتا تھا، آج بے حسوں کا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ کبھی یہاں محبت کا بازار گرم تھا، آج قرض کے نوٹس دیواروں پر چپکے ہوئے ہیں۔ کبھی یہاں سجنے والے میلوں میں قہقہے بکھرتے تھے، آج ہر چہرے پر اضطراب، ہر آنکھ میں سوال، ہر لب پر آہ ہے۔ کوئی کھانے کے لیے نہیں مرتا، کوئی جینے کے لیے نہیں روتا لیکن جب انسان کو اپنی عزت کا سوال دو وقت کی روٹی سے ٹکرا جائے تو وہ پھندے سے لٹکنے، زہر پینے، نہر میں کودنے یا خود کو آگ لگا لینے سے پہلے زیادہ دیر سوچتا نہیں۔ یہ 68 لوگ جو اب ہم میں نہیں رہے، ان کی فائلیں شاید کسی تھانے کی میز پر پڑی ہوں گی۔ چند سطریں ہوں گی ”گھریلو جھگڑا، ذہنی دباؤ، مالی پریشانی“اور پھر ’کیس بند‘ کی مہر لیکن اس مہر کے نیچے کتنے سوال دفن ہیں؟وہ جوان بیٹا جس  نے فیس ادا نہ ہونے پر یونیورسٹی چھوڑ دی، وہ باپ جو بچوں کے لیے دودھ نہ لا سکا، وہ خاتون جو روز سسرال کے طعنوں سے بچ کر زندگی کی بھیک مانگتی رہی، وہ بزرگ جو پنشن کی قطار میں جان دے بیٹھے۔ ان سب کے ماتھے پر”خودکشی“کا لیبل لگا دیا گیا مگر ریاست کے ماتھے پر ”شرمندگی“ کا ایک لفظ بھی نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ خودکشی حرام ہے۔ یقیناً ہے مگر جب ریاست خودکشی کے اسباب خود پیدا کرے؟جب مہنگائی حرام خوری بن جائے، جب روزگار ایک خواب، تعلیم ایک دھوکہ، صحت ایک مذاق، انصاف ایک ٹریجڈی بن جائے۔ تو پھر کون حرام ہے؟جو زندگی چھین رہا ہے یا جو خود سے زندگی چھین رہا ہے؟ایک دور تھا جب مہنگائی صرف تنخواہ کھا جاتی تھی، آج یہ عزت، غیرت، امید، سکون اور آخر میں جان بھی کھا جاتی ہے۔ ایک دور تھا جب بجلی کا بل صرف بلب بجھا دیتا تھا، آج یہ ذہن بجھا دیتا ہے۔ ایک دور تھا جب لوگ مزدوری نہ ملنے پر شکوہ کرتے تھے، آج وہ جان دے دیتے ہیں۔ اور یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکمران ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے، مہنگائی کے اعداد و شمار کو PowerPoint سلائیڈز میں سجائے، ترقی کے افسانے لکھ رہے ہیں۔

 یہ کیسا نظام ہے جس میں انسان جینے کی اجازت صرف اس صورت میں حاصل کرتا ہے کہ وہ ٹیکس دے سکے؟جس کے بچے صرف اسی صورت سکول جا سکتے ہیں کہ وہ فیس بھر سکے؟جہاں ہسپتال کا بیڈ اسی کو ملتا ہے جس کے پاس پیسوں کی پرچی ہو؟یہ نظام نہیں، یہ اذیت ہے اور جب اذیت حد سے بڑھ جائے تو انسان یا تو پاگل ہو جاتا ہے یا خودکشی کر لیتا ہے۔ خودکشی کرنے والے ان 68 انسانوں کی فہرست دیکھئے، آپ کو ان میں سے کسی کا چہرہ شاید پہچان میں نہ آئے مگر ان کی کہانی آپ کے آس پاس بکھری ہوئی ہے۔ وہ نوجوان جس  نے سی وی درجنوں کمپنیوں کو بھیجی مگر نوکری نہ ملی۔ وہ ماں جس نے بیٹی کی شادی کے لیے زیور گروی رکھ دیا اور پھر بھی جہیز کے طعنے سن کر زہر پی لیا۔ وہ بزرگ جو دوائیں خریدنے کے لیے سبزی بیچتے رہے اور پھر ایک دن خاموشی سے گزر گئے۔

 یہ سب ہمارے اندر ہی تو ہیں، ہمارے اردگرد ہی تو ہیں مگر ہم اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ جب تک لاش درخت سے لٹکتی نظر نہ آئے، ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی ایک انسان تھا۔ معاشی تباہی کی ایک الگ زبان ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف جیب خالی کرتی ہے بلکہ رشتے بھی توڑ دیتی ہے۔ ماں باپ بچوں کو مہنگے سکول میں نہیں پڑھا سکتے تو بچے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ شوہر بیوی کو خواہشات پوری نہیں کر کے دیتا تو بیوی طعنے دیتی ہے۔ دوست مدد نہ کر سکے تو دوستی ٹوٹ جاتی ہے اور آخر میں انسان اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ تب وہ معاشرہ جو اسے روز زندہ درگور کرتا رہا، آخرکار اسے قبر میں ڈال دیتا ہے اور پھر سب سکون سے چائے پی کر اگلی بریکنگ نیوز کا انتظار کرتے ہیں۔ ”سب کی ماں“ ہونے کی دعوے دارحکومت سے کوئی یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ ان کے دور میں خودکشیوں کی شرح کیوں بڑھی؟

یہ تو کہا جاتا ہے کہ فلاں حکومت  نے سڑکیں بنائیں، فلاں نے میٹرو چلائی، فلاں نے لیپ ٹاپ بانٹے مگر یہ کوئی کیوں نہیں پوچھتا کہ کونسی حکومت  نے سب سے زیادہ لوگ خودکشی پر مجبور کیے؟کیا یہ اعداد و شمار ناپنے والا کوئی ادارہ ہے؟نہیں، کیونکہ انسانی جان کی قدر ہی ختم ہو چکی ہے۔ ایک جان چلی جائے تو خبر بنتی ہے، دس چلی جائیں تو رپورٹ اور اگر سو سے اوپر ہو جائے تو ہم اسے ”معاشرتی رجحان“کا نام دے دیتے ہیں۔جیسے یہ کوئی فیشن ہو، کوئی ٹرینڈ ہو، کوئی نیا وائرس ہو۔  ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ خودکشی صرف ایک لمحہ نہیں، یہ ایک طویل اذیت کا انجام ہوتا ہے۔ کسی  نے کتنی راتیں روتے ہوئے گزاری ہوں گی؟کتنے دن خالی پیٹ گزارے ہوں گے؟ کتنی بار احساس کمتری سے دوچار ہوا ہو گا؟کتنی بار رشتوں سے ذلت سنی ہو گی؟کتنی بار ملازمت کی تلاش میں ناکام ہوا ہو گا؟تب جا کے اس نے زہر خریدا ہو گا۔

 کاش زہر فروخت کرنے والے کو معلوم ہوتا کہ وہ صرف ایک کیمیکل نہیں،  ایک انسان کا خواب خرید رہا ہے۔ کاش اس کے ہاتھ کپکپائے ہوتے،  دل رویا ہوتا،  آنکھیں لرزیں ہوتیں۔ مگر افسوس،  ہمارے معاشرے میں موت سے پہلے کوئی نہیں روتا،  سب بعد میں آنسو بہاتے ہیں تاکہ لوگوں کو دکھا سکیں کہ ہم بھی انسان ہیں۔ کیا کبھی کسی اسمبلی میں ان 68 افراد کا تذکرہ ہوا؟کیا کسی ایم این اے،  کسی وزیر نے سوال اٹھایا کہ یہ کون لوگ تھے،  کیوں مرے،  کیسے مرے؟کیا کبھی کسی بجٹ میں یہ سوچا گیا کہ مہنگائی سے بچاؤ کے لیے کوئی خودکشی روک تھام فنڈ رکھا جائے؟نہیں،  کیونکہ ہم لاشوں پر تقریریں کرتے ہیں،  ان پر پالیسیاں نہیں بناتے۔

 ہم جنازوں میں شرکت کو انسانیت سمجھتے ہیں،  زندہ لوگوں کی مدد کو نہیں۔ عجیب المیہ ہے،  جس ملک میں کتے،  بلیوں،  پرندوں کے لیے ہسپتال ہوں،  وہاں انسانوں کے دکھوں کا کوئی علاج نہیں۔ جس ریاست میں خواص کے لیے سبسڈی،  ٹیکس چھوٹ،  بیرون ملک علاج،  مفت بجلی گیس ہو،  وہاں عوام صرف بل بھرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ ان سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے اور جب وہ مر جاتے ہیں تو کہتے ہیں ”ذہنی مریض تھا“۔ یہ ذہنی مریضی کہاں سے آتی ہے؟یہ فاقوں سے،  قرضوں سے،  طعنوں سے،  بے بسی سے،  ذلت سے،  ریاست کی بے حسی سے آتی ہے۔ وقت ہے کہ ہم اجتماعی طور پر سوچیں۔ کیا ہم ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جو صرف امیر کے لیے مسکرا رہا ہو اور غریب کے لیے نوحہ بن جائے؟کیا ہم ایسی ریاست کو کامیاب کہیں گے جہاں تعلیم مہنگی،  علاج مہنگا، روزگار ناپید،  انصاف کمزور،  اور زہر سب سے سستا ہو؟اگر نہیں، تو پھر ہمیں اپنے ضمیر کو جھنجوڑنا ہو گا۔

  صرف مذمت، تعزیت اور تبصرے کافی نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ ہر خودکشی کے پیچھے چھپی کہانی کو سنے، سمجھے اور حل کرے۔ لوگوں کو معاشی ریلیف دیا جائے، ذہنی صحت کے مراکز قائم کیے جائیں، مفت ہیلپ لائنز بنائی جائیں اور سب سے بڑھ کر تعلیم ا و روزگار کو ترجیح دی جائے۔ اگر ہم  نے یہ نہ کیا تو آنے والے وقت میں یہ تعداد 68 سے 680 یا 6800 تک جا سکتی ہے۔ اور پھر ہو سکتا ہے ہم میں سے بھی کوئی ایک، اخبار کی ایک لائن بن کر رہ جائے۔۔

سینئر صحافی، کالم نگار اور بلاگر ہیں، پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

خالد شہزاد فاروقی

خالد شہزاد فاروقی

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس