Follw Us on:

سانحہ پاکپتن: تحقیقاتی رپورٹس تیار، تین نجی اسپتال سیل

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Pakpattan
ایک ہی رات میں پانچ بچوں کی اموات ہوئیں۔ (فوٹو: فیسبک)

پاکپتن اسپتال میں ہونے والے واقعہ میں بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے مطابق اسپتال میں 20 نومولود بچوں کی ہلاکت کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹس تیار کرلی گئی ہیں۔

نجی نشریاتی ادارے جیو نیوز کے مطابق 15 بچے نجی اسپتال میں پیدا ہوئے، حالت خراب ہونے پر انہیں نجی اسپتال لایا گیا۔

تین نجی اسپتال سیل کردیے گئے ہیں۔ پانچ بچوں کی ہلاکت دائیوں کے غیر تربیت یافتہ طریقہ استعمال کرنے سے ہوئی۔

یاد رہے کہ 16 سے 22 جون کے درمیان پاکپتن ڈسٹرکٹ اسپتال کے چلڈرن وارڈ میں ابتدائی طور پر 7 بچوں کی ہلاکت کی اطلاع سامنے آئی، مگر بعد میں ہونے والی تحقیقات میں ہلاکتوں کی اصل تعداد 20 نکلی، جن میں 15 نومولود بچے شامل تھے۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق ایک ہی رات میں پانچ بچوں کی اموات ہوئیں، لیکن حیران کن طور پر اسپتال کے اندرونی عملے پر مشتمل انکوائری کمیٹی نے تمام ہلاکتوں کو ”طبعی اموات“ قرار دیتے ہوئے معاملے کو معمول کا واقعہ قرار دیا۔

ورثا نے اسپتال انتظامیہ پر سنگین الزامات عائد کیے، جن میں آکسیجن سلنڈرز کی کمی، ڈاکٹروں کی غیر موجودگی اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی لاپرواہی شامل ہیں۔ ورثاء نے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف پر غفلت برتنے اور آکسیجن سلنڈرز کی کمی جیسے سنگین الزامات عائد کیے۔

Details
صوبے کے مختلف اسپتالوں میں 56 بچے طبی عملے کی مبینہ لاپرواہی کے باعث جاں بحق ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: پاکستان میٹرز)

نجی نشریاتی ادارے اے جی این نیوز پر واقعہ کی رپورٹ نشر ہونے کے بعد اسپتال میں کام کرنے والے پانچ افراد کو سرنڈر کر دیا گیا۔ مگر ڈپٹی کمشنر نے اسپتال عملے پر مشتمل داخلی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کو متعصب اور یکطرفہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کمیٹی کا مقصد صرف طبی عملے کو بچانا تھا۔

اس دلخراش واقعہ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ڈپٹی کمشنر پاکپتن ماریہ طارق نے حقائق سامنے لانے کے لیے آزادانہ تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا۔ ڈی سی پاکپتن نے واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے کمشنر ساہیوال کو درخواست دی، جس پر فوری ایکشن لیتے ہوئے آزادانہ تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

کمیٹی میں شامل ارکان میں ڈاکٹر مزمل عرفان حیات (اے ایم ایس، ساہیوال ٹیچنگ اسپتال)، ڈاکٹر جویریہ سعید (سینئر رجسٹرار)، احمر بلال (بائیو میڈیکل انجینئر) شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکپتن: بچوں کی اموات کیسے ہوئیں؟ پرانی تحقیقات مسترد، نئی کمیٹی تشکیل

اس کمیٹی کو پانچ دن کے اندر واقعے کی مکمل چھان بین کر کے ذمہ داران کا تعین کرنے اور اپنی رپورٹ جمع کروانے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال صوبے کے مختلف اسپتالوں میں 56 بچے طبی عملے کی مبینہ لاپرواہی کے باعث جاں بحق ہو چکے ہیں۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس