جاپان اور جنوبی کوریا نے اعلان کیا ہےکہ وہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ اگست کے آغاز سے نافذ ہونے والی ٹیررفز کے اثرات کو نرم کیا جا سکے۔ یہ ٹیررفز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے منصوبے کے تحت لگائی جائیں گی۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پیر کو ٹرمپ نے اپنے تجارتی جنگ میں مزید شدت لاتے ہوئے 14 ممالک کو مطلع کیا کہ وہ جاپان اور جنوبی کوریا سمیت مختلف ممالک پر 25% تک ٹیررفز عائد کریں گے، جبکہ لاؤس اور میانمار جیسے ممالک پر 40% تک ٹیررفز ہوں گی۔
اس نئی تین ہفتے کی مدت میں ان ممالک کی نظر اس بات پر ہے کہ وہ امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کر کے اس معاملے کو نرم کر سکیں۔ جاپان اپنی بڑی آٹوموبائل صنعت کے لیے رعایت چاہتا ہے، جیسا کہ جاپان کے اعلیٰ تجارتی مذاکرات کار ریو سی آکازاوا نے منگل کو بتایا۔
آکازاوا نےرائٹرز کو بتایا کہ انہوں نے امریکی وزیرِ تجارت ہوؤرڈ لوٹک سے 40 منٹ کی ٹیلیفون کال کی تھی، جس میں دونوں نے مذاکرات کو مزید جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ وہ جاپان کے زراعت کے شعبے کو، جو کہ اندرونِ ملک ایک طاقتور سیاسی لابی ہے، کسی بھی جلدی سمجھوتے کے لیے قربان نہیں کریں گے۔
جنوبی کوریا نے کہا کہ وہ آنے والے ہفتوں میں تجارتی بات چیت کو مزید تیز کرے گا تاکہ “ایک باہمی فائدہ مند نتیجے تک پہنچا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:جنگ، جنگ ،جنگ! ٹرمپ، یاہو ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس سے تصویر جاری
جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ آیا یہ نئی ڈیڈ لائن پکی ہے، تو انہوں نے پیر کو جواب دیا کہ میں کہوں گا کہ یہ پکی ہے لیکن سو فیصد پکی نہیں۔ اگر وہ فون کریں اور کہیں کہ ہم کچھ مختلف طریقے سے کرنا چاہتے ہیں، تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔
عالمی اسٹاک مارکیٹیں منگل کو مستحکم رہیں اور تھوڑی بہت بڑھت دیکھنے کو ملی، کیونکہ سرمایہ کاروں نے ٹیررفز کے اس نئے موڑ کو معمولی طور پر لیا۔ تاہم، جاپانی سامان پر ٹیررفز کے امکان سے یین کی قیمت میں کمی آئی۔