فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ وہ 10 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ پیش رفت غزہ میں جاری جنگ بندی کی کوششوں کے تناظر میں سامنے آئی ہے، تاہم حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے سخت گیر مؤقف کے باعث مذاکراتی عمل “انتہائی مشکل” ثابت ہو رہا ہے۔
قطر اور امریکا کی ثالثی میں جاری بات چیت کے دوران حماس نے حالیہ جنگ بندی کی تجویز کو مشروط طور پر قبول کر لیا ہے۔ تنظیم کے نمائندے طاہر النوعنو نے ایک بیان میں کہا کہ حماس اپنے عوام کو تحفظ دینے، اسرائیلی بمباری سے روکنے، اور انسانی امداد کی باعزت فراہمی یقینی بنانے کے لیے ضروری لچک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
النوعنو کے مطابق ابتدائی جنگ بندی مرحلے کے دوران یہ طے کیا جائے گا کہ اسرائیلی افواج غزہ کے کن علاقوں سے پیچھے ہٹیں گی، تاکہ فلسطینی عوام کی روزمرہ زندگی متاثر نہ ہو اور مذاکرات کے دوسرے مرحلے کی راہ ہموار ہو سکے۔

یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیلی فضائی حملوں میں غزہ میں مزید کم از کم 74 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں نے انسانی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ادھر واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر جنگ بندی کی امید ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “مجھے لگتا ہے کہ اس ہفتے یا اگلے ہفتے تک ہمیں موقع مل سکتا ہے، یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ جنگ اور غزہ جیسے مسائل میں یقین کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن امکانات بہت اچھے ہیں کہ کسی نہ کسی قسم کا معاہدہ جلد طے پا جائے۔”
سیاسی مبصرین کے مطابق حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی کی پیشکش ایک اہم پیش رفت ہے، جو جنگ بندی کی طرف پہلا عملی قدم ثابت ہو سکتی ہے، تاہم اسرائیلی حکومت کی طرف سے تاحال اس پر باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
مذاکراتی عمل میں انسانی امداد کی فوری فراہمی، اسرائیلی افواج کی مرحلہ وار واپسی، اور مستقل جنگ بندی کی ضمانت جیسے نکات بنیادی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ پیش رفت خطے میں امن کی جانب ایک مثبت اشارہ ہو سکتی ہے۔