Follw Us on:

سوشل میڈیا کے ہزاروں فالوورز، مگر زندگی کا ایک بھی ساتھی نہیں!

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Humaira asghar
کراچی: اداکارہ حمیرا اصغر کی کئی روز پرانی لاش ڈیفنس میں واقع فلیٹ سے برآمد( فائل فوٹو:انڈپینڈنٹ اردو)

تحریر : رانا علی زوہیب

8 جولائی 2025 کو کراچی کے ایک فلیٹ سے ماڈل اور اداکارہ حمیرا اصغر کی 6 ماہ پرانی گلی سڑی لاش کا ملنا صرف ایک خبر نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ ایک خوبصورت، معروف اور با صلاحیت خاتون 6 ماہ تک اپنے گھر میں سڑتی رہی، مگر نہ اس کے خاندان نے اسے ڈھونڈا، نہ دوستوں کو اس کی فکر ہوئی، نہ ہمسایوں کو کوئی شک ہوا۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں فالوورز رکھنے والی حمیرا کی موت نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ “کیا ہماری سوسائٹی میں انسانیت مر چکی ہے؟”

حمیرا اصغر کا المیہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی کئی معروف شخصیات اسی طرح تنہائی اور نظر اندازی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلی گئیں۔ 2020 میں مشہور کامیڈین نادیہ خان کی موت کے بعد پتہ چلا کہ وہ کئی دنوں سے اپنے گھر میں مردہ پڑی تھیں، مگر کسی نے خبر تک نہیں لی۔

 2018 میں ماڈل سائرہ شاہد لاہور میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئیں، جبکہ وہ ڈپریشن کا شکار تھیں مگر خاندان نے ان کی طرف توجہ نہ دی۔ 2017 میں معروف اداکار قاسم کلیم کراچی میں اپنے فلیٹ میں تنہا فوت ہوئے، ان کی لاش تب ملی جب بدبو نے ہمسایوں کو پریشان کر دیا۔

 یہ تمام کیسز ایک ہی دردناک حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں انسان کی قدر صرف اس وقت تک ہے، جب تک وہ “فائدہ” دے رہا ہو۔

حمیرا اصغر انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر لاکھوں فالوورز رکھتی تھیں۔ اس کے ویڈیوز پر ہزاروں کمنٹس آتے تھے، مگر جب وہ مر گئی تو کسی نے 6 ماہ تک پوچھا تک نہیں۔ یہ “ڈیجیٹل تنہائی” کا نیا دور ہے، جہاں لوگ سوشل میڈیا پر تو مشہور ہیں، مگر حقیقی زندگی میں کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ 

لوگ “لائکس” تو دیتے ہیں، مگر مدد نہیں کرتے۔ فالوورز “کمنٹس” میں تعریف کرتے ہیں، مگر کبھی یہ نہیں پوچھتے کہ “تم ٹھیک تو ہو؟” ہم “سٹیٹس” تو شیئر کر لیتے ہیں، مگر کسی کی مدد کے لیے اٹھ کر کھڑے نہیں ہوتے۔ 

حمیرا اصغر کے کیس میں سب سے زیادہ شرمناک پہلو یہ ہے کہ اس کا خاندان، دوست اور ہمسائے سب کہیں نہیں تھے۔ کیا 6 ماہ تک ماں باپ اور بہن بھائی کو خیال نہیں آیا کہ ان کی بیٹی کہاں ہے؟ کیا فون کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی؟ 

اگر حمیرا کے واقعی “دوست” ہوتے، تو کیا وہ 6 ماہ تک اس کے بارے میں کچھ نہیں سوچتے؟ کیا ہمسائیوں نے بدبو محسوس نہیں کی؟ کیا کسی نے پولیس کو اطلاع دینے کی زحمت کی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہم سب کو اپنے ضمیر سے پوچھنے چاہئیں۔ 

حمیرا اصغر کی موت کوئی ایک واقعہ نہیں، بلکہ ہماری بے حسی کا ایک اور باب ہے۔ ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ خاندان کو اپنے افراد کی فکر کرنی ہوگی۔ صرف پیسہ کمانا کافی نہیں، رشتوں کو بھی وقت دو، دوستی صرف سوشل میڈیا تک محدود نہ رہے، اپنے دوستوں کے ساتھ حقیقی تعلق قائم کریں۔ ہمسایوں کی خبر گیری کریں۔

 اسلام نے ہمسایوں کے حقوق پر زور دیا ہے، مگر آج ہم اپنے پڑوسی کے نام تک نہیں جانتے۔ ڈیجیٹل زندگی کے بجائے حقیقی زندگی پر توجہ دیں۔ فالوورز آپ کو زندہ نہیں رکھ سکتے، مگر ایک حقیقی دوست یا رشتہ دار آپ کی زندگی بچا سکتا ہے۔ 

حمیرا اصغر کی موت کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ یہ ہم سب کے لیے ایک وارننگ ہے کہ اگر ہم نے اپنے رویے نہیں بدلے، تو ہم میں سے ہر کوئی ایک دن حمیرا بن سکتا ہے۔ کسی کو تنہا مت چھوڑیے، کیونکہ آج وہ ہے، کل آپ بھی ہو سکتے ہیں۔ حمیرا زندہ ہوتی تو شاید آج بھی کسی کے کمنٹس کا جواب دے رہی ہوتی… مگر کسی نے اسے جواب دینے کی زحمت نہیں کی!

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی فیس بک وال سے لی گئی ہے، ادارے کا خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر 

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس