ایک طرف پاکستان کی گلیوں میں بچوں کی قہقہوں کی گونج ہے، نوجوانوں کی آنکھوں میں خواب، اور گھروں میں دن رات کام کرتی محنت کش آبادی؛ تو دوسری طرف اعداد و شمار ہیں جو حکومتی رپورٹس میں آبادی کو ایک “مسئلہ” بتاتے ہیں۔
25 کروڑ انسان، 25 کروڑ ذہن، 25 کروڑ امیدیں، مگر افسوس کہ ان کو اکثر صرف غربت، بے روزگاری اور وسائل کی کمی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ کیا واقعی پاکستان کی بڑھتی آبادی ایک بوجھ ہے؟ یا یہ وہ خزانہ ہے جو اگر درست سمت مل جائے، تو پاکستان کو دنیا کی بڑی طاقتوں میں لا کھڑا کر سکتا ہے؟
موجودہ صورتحال میں پاکستان کو ایک دوہرے چیلنج کا سامنا ہے۔ ایک طرف معاشی دباؤ، توانائی بحران، مہنگائی، اور وسائل کی کمی؛ دوسری جانب نوجوانوں کی بڑی تعداد جو روزگار، تعلیم اور مواقع کے انتظار میں ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 64 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر ہے۔ یہ خطے میں نوجوانوں کا سب سے بڑا تناسب ہے۔ اگر یہ طبقہ تعلیم، صحت اور ہنر سے آراستہ نہ ہو، تو یہی طاقت بغاوت، مایوسی یا بدامنی کا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر پرویز اقبال جو کہتے ہیں “ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم آبادی کے مسئلے کو صرف کنٹرول کے زاویے سے دیکھتے ہیں، مینجمنٹ کے زاویے سے نہیں۔
اگر ہم تعلیم کے شعبے پر سنجیدگی سے سرمایہ کاری کریں، ووکیشنل ٹریننگ، ڈیجیٹل لٹریسی اور ہنرمندی کے منصوبے متعارف کروائیں، تو یہی 25 کروڑ دماغ ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں۔ یہ بوجھ نہیں، یہ موقع ہے، مگر افسوس کہ ہم نے اس موقع کو کبھی درست طریقے سے پہچانا ہی نہیں۔”
معروف اقتصادی تجزیہ کار سعدیہ محمود کا کہنا ہے “پاکستان میں لاکھوں نوجوان ہر سال لیبر مارکیٹ میں آتے ہیں، مگر نوکریاں نہیں ملتیں۔ مسئلہ آبادی کا نہیں، پالیسی کا ہے۔
ہم نے نوجوانوں کو کاروباری سہولت، ٹیکنالوجی، زرعی جدت، یا گرین اکنامی کی طرف مائل ہی نہیں کیا۔ اگر حکومت کاروبار میں آسانیاں پیدا کرے، سٹارٹ اپس کی معاونت کرے، اور نوجوانوں کو روزگار پیدا کرنے والا بنایا جائے، تو معیشت میں انقلاب آ سکتا ہے۔”

انسانی وسائل کی ماہر بشریٰ یاسین کہتی ہیں “ہمارے ہاں خواتین کی بڑی تعداد کام کی دنیا سے باہر ہے، صرف اس لیے کہ ہمارے نظام میں ان کے لیے جگہ ہی نہیں۔
اگر خواتین کی شرکت بڑھا دی جائے، ان کو تربیت، تحفظ اور سہولت دی جائے، تو پاکستان کی ورک فورس دگنی ہو سکتی ہے۔ آبادی کا ہر فرد ایک موقع ہے، لیکن ہمارے سسٹمز ابھی تک ماضی میں جکڑے ہوئے ہیں۔”
ان تینوں آرا سے ایک چیز واضح ہوتی ہے، مسئلہ تعداد کا نہیں، نظام کا ہے۔ اگر ریاست آبادی کو صرف وسائل کا صارف سمجھے گی اور ان میں سرمایہ کاری نہیں کرے گی، تو بلاشبہ یہ تعداد ایک دباؤ بنے گی۔

لیکن اگر اس کو ہنر، تعلیم اور مواقع دیے جائیں، تو یہی لوگ وہ ایندھن بن سکتے ہیں جو معیشت، معاشرت اور تہذیب کو نئی سمت دے سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ انسانی ترقی، انسانی صلاحیت سے ہی جُڑی ہوتی ہے۔ اگر پاکستان نے آج یہ فیصلہ کر لیا کہ ہر شہری ایک اثاثہ ہے، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں روک سکتی۔
لیکن اگر ہم نے بدستور ہر بچے کو ایک پریشانی، ہر نوجوان کو ایک خطرہ، اور ہر شہری کو ایک مسئلہ سمجھنا جاری رکھا، تو بوجھ ہم پر بڑھتا جائے گا، اور مواقع ہم سے چھنتے جائیں گے۔
یہ وقت ہے کہ ہم سوچیں، صرف پالیسیوں کی سطح پر نہیں، بلکہ رویے کی سطح پر۔ 25 کروڑ دماغ، یہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہو سکتی ہے، اگر ہم چاہیں۔ اور اگر ہم نے آج یہ نہ چاہا، تو کل یہی تعداد ہمارے لیے سب سے بڑی بے بسی بن جائے گی۔