ساہیوال میں ریلوے پھاٹک کے قریب خودکشی کرنے والی خاتون اور اس کے دونوں کمسن بچوں کی شناخت ہو گئی ہے۔
پولیس کے مطابق جاں بحق ہونے والی خاتون کا نام اقراء تھا جس کی عمر تقریباً 30 برس تھی۔ اقراء نے اپنے تین سالہ بیٹے معاذ اور ایک سالہ بیٹے عمار کے ساتھ ریلوے لائن پر جا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

پولیس کے مطابق اقراء گزشتہ دو ماہ سے اپنے شوہر سے ناراض ہو کر بچوں سمیت میکے میں مقیم تھی۔ افسوسناک واقعے کے بعد ماں اور بچوں کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے ٹیچنگ اسپتال منتقل کی گئیں جہاں ضروری کارروائی کے بعد ان کے جسد خاکی ورثاء کے حوالے کر دیے گئے۔
اس افسوسناک واقعے نے پاکستان میں خواتین کی خودکشی کے بڑھتے رجحان پر ایک بار پھر توجہ مرکوز کر دی ہے۔ سائنس ڈائریکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کی خودکشی کے پیچھے متعدد سماجی، نفسیاتی اور خاندانی عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور پاکستان میں ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 15 خواتین ہر سال خودکشی کرتی ہیں خاص طور پر دیہی علاقوں میں یہ شرح نسبتاً زیادہ دیکھی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ راولپنڈی کے دیہی علاقے میں 2022 کے دوران خواتین کی خودکشی سے متعلق اہم عوامل سامنے آئے جن میں سسرال کا دباؤ، ازدواجی تشدد، جہیز نہ لانے پر طعنے، معاشی تنگی اور شوہروں کی بے رخی شامل ہیں۔ تحقیق میں شامل خواتین میں سے نصف نے خودکشی کی کوشش کی تھی جبکہ باقی نے طویل عرصے تک خودکشی کے خیالات کا سامنا کیا۔
تحقیق کے مطابق خواتین اکثر سسرال میں احساس تنہائی اور بےقدری کا شکار ہوتی ہیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ میری ساس میرے شوہر کو اُکسا کر مارتی تھی اور شوہر کا تشدد میری زندگی کا معمول بن گیا تھا ۔ کئی خواتین نے کہا کہ ان کی خودکشی کی کوششوں کے بعد بھی انہیں تشدد کا سامنا رہا اور ان کے مسائل کو کوئی سننے والا نہ تھا۔

تحقیق میں شریک خواتین نے ماں ہونے کے احساس کو بیک وقت اپنی زندگی کا سہارا اور بوجھ قرار دیا۔ ان کے مطابق بچوں کی خاطر زندہ رہنا ضروری ہوتا ہے لیکن اسی وجہ سے وہ اپنی اذیت سے مکمل نجات بھی حاصل نہیں کر پاتیں۔ ایک خاتون کا کہنا تھا میری بچی بیمار تھی اسی وجہ سے زندہ رہی ورنہ میں کب کی خودکشی کر چکی ہوتی۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مذہب بھی خواتین کے لیے ایک اہم نفسیاتی فیکٹر بنتا ہے۔ کئی خواتین نے بتایا کہ انہیں خودکشی کے خیالات کے بعد شدید گناہ کا احساس ہوا اور وہ اللہ سے معافی مانگتی رہیں۔ تاہم مذہبی احساسات کئی مرتبہ ان کے احساس گناہ اور شرمندگی کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین جنہوں نے خودکشی کی کوشش کی یا طویل عرصے تک خیالات کا سامنا کیا ان میں زیادہ تر وہ تھیں جو کم عمری میں بیاہی گئیں جہیز نہ ہونے پر سسرال کے طعنوں کا شکار ہوئیں یا شوہر اور خاندان کی جانب سے مسلسل دباؤ میں رہیں۔
واقعے کے فوری بعد پولیس نے خاتون اور بچوں کی شناخت کے لیے قریبی آبادیوں کی مساجد میں اعلانات بھی کروائے تھے تاکہ لواحقین تک اطلاع پہنچائی جا سکے۔ واقعے کی مزید تحقیقات جاری ہیں،جبکہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر کارروائی مکمل کی جائے گی۔