8 دسمبر 2024 کو سابق شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ پلٹتے ہی اسرائیل نے شام کی حدود کی جانب پیش قدمی شروع کی، صیہونی فوج نے شامی سرحد پر واقع گولان کی پہاڑیوں کے بفر زون پر قبضہ کیا اور شامی سرحد سے ملحقہ علاقوں پر حملے شروع کیے،
اسرائیل کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں پر فوجی طاقت میں بھی اضافہ کیا اور اس علاقے میں مزید آبادکاری بھی کر رہا ہے۔
اسرائیلی حملوں کے بعد ایک بار پھر گولان کی پہاڑیاں اہمیت اختیار کرگئی ہیں۔
آخر کیوں اسرائیل گولان کی پہاڑیوں پر اپنا مستقل قبضہ جمانا چاہتا ہے؟ کیا گولان کی پہاڑی اتنی ہی اہم ہیں کہ اسرائیل اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا؟ آئیے ان پہاڑیوں کی جغرافیائی اور اسٹریجک اہمیت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کے بعد بہت سے بیانات سامنے آئے، اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو نے کہا کہ “گولان کی پہاڑیاں قیامت تک اسرائیل کا حصہ رہیں گی”۔ بہت سے ممالک کی جانب سے اس بیان پر تنقید کی گئی اور اقوامِ متحدہ نے بھی مذمت کی۔
خیال رہے کہ 1967 سے پہلے تک یہ پہاڑیاں شام کا حصہ تھیں۔ اسی سال ہی 6 دن کی جنگ کے بعد اسرائیل نے ان پہاڑیوں کے زیادہ تر حصے پہ قبضہ کرلیا۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں شام نے اسرائیل سے قبضہ چھڑوانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔
1974 میں اسرائیل اور شام کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا اور دونوں ممالک کے درمیان بفر زون قائم کیا گیا جہاں اقوامِ متحدہ کی امن فوج کو سیکیورٹی کے پیشِ نظر تعینات کر دیا گیا۔ لیکن 1981 میں اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی اور یہاں آبادکاری شروع کردی۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کے دمشق میں صدارتی محل اور وزارت دفاع پر فضائی حملے
اسرائیلی آباد کاری کو عالمی سطع پہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ تا ہم 2019 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گولان کی پہاڑیوں پہ اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کیا اور بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اسرائیل نے بفرزون پر بھی قبضہ کر لیا، اب اسرائیل یہاں 30 بستیاں بسا رہا ہے جن میں تقریباً 31 ہزار لوگ شامل ہیں۔
گولان کی پہاڑیاں دفاعی لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کا کل رقبہ 1200 مربع کلومیٹر ہے اور شام کے دارلحکومت دمشق سے ان کا فاصلہ صرف 60 کلومیٹر ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کے باوجود یہاں انگور، سیب اور چیری جیسے پھل کثرت سے پائے جاتے ہیں، ان پہاڑیوں کی بلندی سے جنوبی شام کے زیادہ تر حصے واضح دکھائی دیتے ہیں، دریائے اردن بھی انہی پہاڑیوں سے بہتا ہے جس سے ارد گرد کی زمینوں کی کاشت کاری کی جاتی ہے۔
گولان کی پہاڑیوں پر بسنے والے تقریباً 55 ہزار لوگوں میں سے 24 ہزار لوگ دروز ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت ان کو مسلمان نہیں مانتی۔ بہت سے دروز اسرائیلی قبضے کے بعد شام کی طرف ہجرت کر گئے۔
مشرقِ وسطیٰ میں واقع گولان کی پہاڑیاں دفاعی، معاشی اور معدنیاتی لحاظ سے نہایت اہم ہیں۔ شام اور اسرائیل دونوں اس کوشش میں ہیں کہ ان پر قبضہ کیا جائے۔ تا حال ان پہاڑیوں پہ اسرائیل کا قبضہ ہے جس عالمی طاقتوں کی حمایت ہے، پاکستان اورعرب ممالک سمیت عالمی برادری کی شدید تنقید کے باوجود اسرائیل ان پہاڑیوں کو چھوڑنے کے لیے تیارنہیں ہے۔.