اسرائیلی فوج نے حماس کے ساتھ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد غزہ کے مختلف علاقوں میں ہزاروں عمارتیں منظم طریقے سے منہدم کر دی ہیں۔
یہ کارروائیاں مارچ کے بعد تیز ہوئیں جب اسرائیل نے غزہ کے مختلف علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کا دعویٰ کیا۔
سیٹلائٹ تصاویر اور تصدیق شدہ ویڈیوز میں ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ منہدم کی گئی عمارتیں ان جگہوں پر واقع تھیں جو کبھی آباد بستیاں اور شہر تھے۔ تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی مقامات پر صرف انہدام کے بعد ہی تباہی ہوئی ہے جبکہ کچھ عمارتیں پہلے سے ہی جزوی طور پر متاثر تھیں۔
تل السطان غزہ کے شہر رفح کا ایک گنجان آباد علاقہ تھا جہاں ایک زچگی اسپتال اور یتیم بچوں کا مرکز بھی موجود تھا۔ تیرہ جولائی تک یہ علاقہ مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
اسی طرح سعودی محلہ جہاں شہر کی سب سے بڑی مسجد اور کئی اسکول تھے اب انہدام کی زد میں ہے۔

خزاعہ جو کہ اسرائیلی سرحد سے ڈیڑھ کلومیٹر دور واقع ایک زرعی قصبہ ہے اسرائیلی فوج کے مطابق وہاں بارہ سو عمارتیں منہدم کی گئیں۔ اسرائیلی افواج کا کہنا ہے کہ ان عمارتوں میں حماس کے دہشت گرد نیٹ ورکس چھپے ہوئے تھے۔
عبسان الکبیرہ میں بھی بڑی تعداد میں عمارتیں گرائی گئیں جہاں جنگ سے پہلے ستائیس ہزار افراد رہتے تھے۔
خبر رساں ایجنسی بی بی سی ویری فائی کے مطابق ان کو دی گئی ایک وضاحت میں اسرائیلی دفاعی فورسز کے ترجمان نے کہا کہ وہ عالمی قوانین کے مطابق کارروائی کرتے ہیں اور ان کے بقول حماس شہری علاقوں میں فوجی ڈھانچے چھپاتی ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ املاک کی تباہی صرف اس صورت میں کی جاتی ہے جب ناگزیر فوجی ضرورت ہو۔
البتہ کئی قانونی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسرائیل کی یہ مہم جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ یروشلم میں واقع ڈائکونیا انٹرنیشنل ہیومینیٹیرین لا سینٹر سے وابستہ ماہر قانون ایٹن ڈائمنڈ کا کہنا تھا کہ صرف ممکنہ خطرے کی بنیاد پر شہری املاک کو گرایا جانا عالمی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح آکسفورڈ انسٹیٹیوٹ برائے اخلاقیات قانون اور مسلح تنازعات کی پروفیسر جینینا ڈل نے کہا کہ ایک قابض طاقت پر لازم ہوتا ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھے جب کہ مکمل انہدام سے رہائشی علاقوں کو غیر آباد بنانا اس اصول کے خلاف ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل ان علاقوں کو سیکیورٹی زونز میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے یا ممکنہ طور پر رفح میں مجوزہ انسانی شہر کے لیے زمین ہموار کر رہا ہے۔ ایک اور رائے یہ ہے کہ تباہی کی یہ حکمت عملی فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
رفح کے رہائشی معطز یوسف کا کہنا تھاکہ ان کا نیا گھر جو انہوں نے جنگ سے ایک سال پہلے بنایا تھا مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ان کے پاس نہ گھر ہے نہ سر چھپانے کی جگہ۔
اس صورتحال پر اسرائیلی حکومت یا وزارت دفاع کی طرف سے کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کارروائیوں کی آزادانہ تحقیقات کرائے۔ بعض مبصرین کے مطابق ان انہدامات کا سلسلہ فوری طور پر رکنے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔