Follw Us on:

انڈونیشیا سے درجنوں نومولود بچوں کی فروخت، کیا والدین بھی شامل ہیں؟ نیٹ ورک بے نقاب

حسیب احمد
حسیب احمد
Police say babies in indonesia are
انڈونیشیا کی پولیس نے نومولود بچوں کی عالمی اسمگلنگ میں ملوث ایک گروہ کو بے نقاب کیا ہے۔ (تصویر: اے بی سی نیوز)

انڈونیشیا کی پولیس نے نومولود بچوں کی عالمی اسمگلنگ میں ملوث ایک گروہ کو بے نقاب کیا ہے جو مبینہ طور پر کم از کم پچیس بچوں کو 2023 سے سنگاپور میں فروخت کر چکا ہے۔

یہ کارروائی پونتیانک اور تانگیرنگ شہروں میں عمل میں آئی جہاں پولیس نے 13 افراد کو گرفتار کیا جبکہ چھ ایسے بچوں کو بازیاب کرایا لیا گیا جنہیں بیرون ملک اسمگل کیا جانا تھا۔ ان بچوں کی عمر تقریباً ایک سال ہے۔

You made babies unaffordable
ایسے والدین یا حاملہ خواتین کو نشانہ بناتا تھا جو کسی وجہ سے بچے کی پرورش کے لیے تیار نہ تھیں۔ (تصویر؛ انٹرکلڈ)

ویسٹ جاوا پولیس کے شعبہ جرائم کے ڈائریکٹر سوراوان نےخبر رساں ایجنسی  بی بی سی انڈونیشیا کو بتایا کہ بچوں کو سب سے پہلے پونتیانک میں رکھا جاتا تھا اور ان کے امیگریشن دستاویزات تیار کیے جاتے تھے جس کے بعد انہیں سنگاپور منتقل کیا جاتا تھا۔

انڈونیشین پولیس کے مطابق یہ نیٹ ورک ایسے والدین یا حاملہ خواتین کو نشانہ بناتا تھا جو کسی وجہ سے بچے کی پرورش کے لیے تیار نہ تھیں۔ ابتدائی طور پر ان سے فیس بک کے ذریعے رابطہ کیا جاتا تھا اور پھر واٹس ایپ جیسے ذاتی ذرائع استعمال کیے جاتے تھے۔

بعض بچوں کو تو پیدائش سے پہلے ہی محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ جب بچہ پیدا ہوتا تو اس کی پیدائش کے اخراجات ادا کیے جاتے معاوضے کی رقم دی جاتی اور بچہ لے لیا جاتا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس گروہ میں شامل افراد میں بھرتی کرنے والے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے اور جعلی دستاویزات جیسے خاندانی کارڈ اور پاسپورٹ تیار کرنے والے شامل تھے۔

Woman smuggled baby
عض بچوں کو تو پیدائش سے پہلے ہی محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ (تصویر: اے بی سی نیوز)

بچوں کو ماں سے الگ کرنے کے بعد دو سے تین ماہ تک نگہداشت کے مراکز میں رکھا جاتا اور پھر انہیں جکارتہ اور پونتیانک منتقل کیا جاتا جہاں ان کے پیدائشی سرٹیفکیٹ اور دیگر کاغذات تیار کیے جاتے تھے۔

پولیس کے مطابق ہر بچہ گیارہ لاکھ سے سولہ لاکھ انڈونیشین روپیہ یعنی لگ بھگ پانچ سو پاؤنڈ میں فروخت کیا جاتا تھا۔ اب تک گرفتار کیے گئے افراد کے مطابق بارہ لڑکوں اور تیرہ لڑکیوں کو مختلف اضلاع سے حاصل کر کے فروخت کیا گیا۔

سوراوان نے بتایا کہ پولیس کی فوری کوشش یہ ہے کہ سنگاپور میں موجود ان بچوں کے خریداروں کا سراغ لگایا جائے۔ ان کے بقول ہم ان بچوں کے ڈیٹا کا موازنہ کریں گے تاکہ معلوم ہو سکے کہ کون کون سا بچہ کب  کس کے ساتھ کہاں گیا اور اسے کس نے گود لیا۔

اب تک کی تحقیقات میں کسی بھی بچے کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ یہ تمام بچے والدین اور اسمگلروں کے درمیان معاہدے کے تحت حاصل کیے گئے۔ بعض والدین نے جب بروکر کی طرف سے ادائیگی نہ ہونے پر شکایت کی تو کیس کو اغوا کا رنگ دیا گیا۔

Police say babies
کسی بھی بچے کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ یہ تمام بچے والدین اور اسمگلروں کے درمیان معاہدے کے تحت حاصل کیے گئے۔ (تصویر: اے بی سی نیوز)

انڈونیشین چائلڈ پروٹیکشن کمیشن یعنی کے پی اے آئی کی کمشنر آئی رہماینتی نے بتایا کہ بچوں کی خرید و فروخت کے نیٹ ورک عام طور پر ان خواتین کو نشانہ بناتے ہیں جو سماجی یا معاشی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں جیسے کہ جنسی تشدد  شوہر کی بے رخی یا غیر ارادی حمل۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ نیٹ ورک خود کو زچگی مراکز یا فلاحی ادارے ظاہر کرتے ہیں اور خواتین کو تحفظ کی پیشکش کرتے ہیں جبکہ درحقیقت وہ مالی رقم کے عوض بچوں کی غیرقانونی تحویل کا انتظام کرتے ہیں۔

کے پی اے آئی کے مطابق اگرچہ بچوں کی فروخت کے درست اعداد و شمار دستیاب نہیں تاہم ادارے کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ 2020 میں ایسے گیارہ کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 2023 میں یہ تعداد 59 ہو چکی ہے۔

ایسے کیسز  2024 میں سامنے آئے جہاں بچوں کو مغربی جاوا اور بالی میں فروخت کیا جا رہا تھا۔ ان کی قیمت علاقے اور بچے کی ظاہری حالت کی بنیاد پر مختلف تھی۔ جوا میں قیمت 11سے 15 لاکھ روپیہ جبکہ بالی میں20 سے 26لاکھ تک تھی۔

پولیس نے انٹرپول اور سنگاپور کے حکام سے تعاون کی درخواست کی ہے تاکہ بیرون ملک موجود ملزمان اور خریداروں کو گرفتار کیا جا سکے۔

Author

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس