غزہ میں اسرائیلی حملوں میں جان بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 60,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اس جنگ میں کم از کم 60,034 فلسطینی جان بحق اور 145,870 زخمی ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 113 فلسطینیوں کی لاشیں ہسپتالوں میں لائی گئیں، جن میں ایک شخص پہلے کے حملے میں جان بحق ہوا تھا۔
ایسی صورتحال میں جہاں زندگی کے معمولات اور امدادی کارروائیاں تقریباً مکمل طور پر رُک چکی ہیں، غزہ کی عوام کو شدید غذائی کمی اور دیگر انسانی بحرانوں کا سامنا ہے۔

عالمی ادارہ خوراک ڈبلیو یاف پی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے امداد کی ترسیل میں شدید رکاوٹوں کے باوجود امدادی سامان کی مطلوبہ مقدار ابھی تک گازہ نہیں پہنچ سکی۔
خبر رساں ایجنسی الجزیرہ نے ایک حالیہ رپورٹ میں انسانی بحران کو سمجھانے کے لیے مختلف موازنوں کا استعمال کیا ہے۔
60,000 افراد کی ہلاکت کو سمجھنے کے لیے اگر ایک ایئر بس A380 جہاز کی تمام نشستیں اکامک کلاس میں رکھی جائیں تو اس میں صرف 853 لوگ بیٹھ سکتے ہیں اور یہ تعداد 71 جہازوں کے برابر ہو گی۔
اس کے علاوہ نیو یارک کے میڈیسن اسکوائر گارڈن کی 19,500 کی نشستوں کا حساب لگایا جائے تو یہ تعداد 3 مکمل اسٹیڈیمز سے زیادہ بنتی ہے۔

اس کے علاوہ دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ کی 10,000 سیٹوں کی گنجائش کا حساب لگایا جائے تو یہ تعداد چھ برج خلیفہ کے برابر ہے۔
موجودہ بحران میں غزہ کے ایک لاکھ سے زائد خواتین اور بچے غذائی قلت کے شدید خطرات سے دوچار ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے انتہائی مشکل انتخاب کا سامنا ہے۔
عالمی ادارہ برائے خواتین کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بہاؤس نے کہا ہے کہ ایک لاکھ خواتین اور بچیاں ایسا کٹھن فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ وہ یا تو بھوک سے مر جائیں گی یا کھانا حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گی۔
الجزیرہ کے مطابق اسرائیل کی طرف سے امداد کی بندش کے سبب 147 افراد کی بھوک سے جان بحق ہوئے جن میں 88 بچے اور شیر خوار بچے شامل ہیں۔
ایسی صورتحال میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی تباہی ناقابلِ برداشت ہے اور کہا کہ اسرائیل فلسطین کے دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت اب تک پہنچنے سے زیادہ دور ہو گئی ہے۔

واضع رہے کہ اسکاٹ لینڈ میں برطانوی وزیرِاعظم سر کیر اسٹارمر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ کے حالات کئی دہائیوں سے خراب ہیں میں نے اب تک چھ بڑی جنگوں کو رکوایا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی مذاکرات میں مشکلات درپیش ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ یورپی یونین کے ساتھ بڑی ڈیل کی ہے اسرائیلی صدر سے بات چیت جاری ہے۔ غزہ میں قحط کی صورتحال ہے اور یہ چیز جھٹلائی نہیں جاسکتی۔ غزہ میں فوڈ سینٹرز قائم کریں گے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ غزہ میں ہر طرف بھوک ہے جلد خواراک پہنچانا چاہتے ہیں۔ امداد کی فراہمی کے لیے لائحہ عمل پر بات چیت کی ہے غزہ کے معاملے پر سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم نے 60 ملین ڈالرز غزہ میں خوراک کے لیے فراہم کیے، امید ہے کہ خوراک ضرورت مند لوگوں تک پہنچے گی۔ ہمیں غزہ میں انسانی ضروریات کا خیال رکھنا ہوگا۔