اسلام آباد میں گدھے کے گوشت کی فروخت کا معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فوڈ سیکیورٹی کے اجلاس میں زیر بحث آیا۔
اجلاس کے دوران رکن اسمبلی سید ایاز شیرازی نے اس معاملے کو اٹھایا اور اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے بھی معاملے کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام ہوٹلز پر جا کر کھانا کھاتے ہیں اور اگر گدھے کا گوشت فروخت ہو رہا ہے تو یہ پورے ملک کے لیے خطرناک صورتحال ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جہاں جہاں گوشت کے پروسیسنگ پلانٹس لگانے کی اجازت دی گئی، کیا ان میں سے کسی جگہ سے گوشت مقامی سطح پر فروخت ہونے کے لیے تو نہیں نکالا گیا؟
جواب میں سیکریٹری فوڈ اینڈ سیکیورٹی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ وزارت کا دائرہ کار قومی سطح پر فوڈ پالیسی تک محدود ہے، جب کہ مقامی سطح پر گوشت کی فروخت اور اس کی نگرانی ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ وزارت برآمدات کے لیے لائسنس تو دیتی ہے لیکن مقامی مارکیٹ میں گوشت کی نگرانی کے اختیارات اس کے پاس نہیں۔

اجلاس میں شوگر ملوں کی جانب سے چینی کی قیمتوں میں من مانے اضافے اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والے منافع کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔
کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کو آئندہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے گا تاکہ اس پر تفصیلی غور کیا جا سکے۔ اجلاس کی صدارت سید حسین طارق نے کی، جب کہ کمیٹی کے رکن ذوالفقار علی نے کہا کہ قیمتوں میں اضافے سے شوگر انڈسٹری کو تقریباً 300 ارب روپے کا فائدہ ہوا، جب کہ کسان اور عام صارف بری طرح متاثر ہوئے۔
ان کے مطابق یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، جس پر پارلیمانی سطح پر بحث ہونی چاہیے۔
مزید پڑھیں: امریکا نے پاکستان کی برآمدات پر 19 فیصد ٹیرف عائد کر دیا، صنعتوں پر کیا اثرات ہوں گے؟
اجلاس کے دوران ایف بی آر کے نمائندے نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ 23 تمباکو کمپنیوں میں اہلکار تعینات کیے گئے ہیں تاکہ تمباکو کی مارکیٹ میں آمد و رفت اور کاشت کے درست اعداد و شمار سامنے آ سکیں۔
نمائندے نے بتایا کہ جنرل سیلز ٹیکس سگریٹ پر عائد ہے، نہ کہ تمباکو پر، اور سگریٹ پر اس وقت 18 فیصد سیلز ٹیکس نافذ ہے۔
ایم ڈی کراپس پاکستان نے اجلاس میں کہا کہ اگر خطے کے دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو وہ زرعی پالیسی سازی اور ٹیکنالوجی، خاص طور پر ڈرون کے استعمال میں کافی آگے نکل چکے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان کو اس میدان میں پالیسی سازی کی سطح پر سنجیدہ معاونت کی ضرورت ہے تاکہ زرعی شعبہ جدید تقاضوں کے مطابق ترقی کر سکے۔