ریکارڈ بارشوں اور دریاؤں میں حالیہ سیلابی صورتحال کے باوجود پاکستان کو آنے والے مہینوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہونے کا خدشہ ہے۔
ماہرین کے مطابق دریائے جہلم میں پانی کے بہاؤ میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی ہے جس کے باعث منگلا ڈیم میں پانی کی آمد نہایت سست روی کا شکار ہے۔
ہفتے کے روز دریا میں پانی کا بہاؤ صرف 25 ہزار 200 کیوسک ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سال کے بہاؤ سے 47 فیصد کم اور 10 سالہ اوسط سے بھی نمایاں حد تک کم ہے۔

منگلا ڈیم کی سطح بھی معمول کے مقابلے میں کم ہے۔ اس وقت اس میں صرف 4.3 ملین ایکڑ فٹ پانی موجود ہے جبکہ اس کی مکمل گنجائش 7.3 ملین ایکڑ فٹ ہے یوں 3 ملین ایکڑ فٹ پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صورتحال یہی رہی تو آئندہ ربیع کے موسم میں 25 فیصد تک پانی کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ ڈیم کی روزانہ سطح بھی محض چند انچ بڑھ رہی ہے، جو پریشان کن ہے۔
دوسری جانب تربیلا ڈیم میں مٹی بھرنے کے باعث اس کی گنجائش میں مستقل طور پر 8 سے 10 فیصد کمی آ چکی ہے، جس سے مجموعی پانی کی دستیابی مزید متاثر ہو گی۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے اعداد و شمار بھی صورتحال کی سنگینی ظاہر کرتے ہیں۔
اپریل سے جولائی کے دوران دریائے سندھ کا بہاؤ گزشتہ سال سے تو بہتر رہا، لیکن دریائے کابل، جہلم اور چناب میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ خاص طور پر دریائے جہلم کا پانی گزشتہ سال سے 27 فیصد اور 10 سالہ اوسط سے 28 فیصد کم ہے۔

ماہرین اس کمی کی ایک بڑی وجہ انڈیا کے ساتھ پانی سے متعلق معلومات کے تبادلے کی بندش کو بھی قرار دے رہے ہیں۔ انڈیا نے اپریل میں سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کرتے ہوئے دریا کی معلومات فراہم کرنا بند کر دی تھی۔
اس کے نتیجے میں پاکستانی حکام کو غیر یقینی صورتحال میں فیصلے کرنے پڑے، جن میں منگلا ڈیم سے تقریباً 5 لاکھ ایکڑ فٹ پانی خارج کرنا شامل ہے، تاکہ فصلوں کی آبپاشی متاثر نہ ہو۔
ارسا کے ترجمان خالد ادریس رانا کے مطابق، ان اتار چڑھاؤ کے باعث ڈیم کی سطح بڑھنے کے بجائے مستحکم رہی۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر مون سون کے دوران ملنے والی تاخیری بارشیں منگلا ڈیم کو بھرنے میں مدد دیتی ہیں، لیکن اس سال نہ صرف ایسی بارشیں نہیں ہوئیں بلکہ مستقبل میں بھی ان کی پیشگوئی نہیں ہے۔
مجموعی طور پر، پاکستان آنے والے مہینوں میں نہ صرف زرعی شعبے بلکہ شہری علاقوں میں بھی پانی کی کمی کا سامنا کر سکتا ہے، جس کے لیے ہنگامی سطح پر منصوبہ بندی اور پالیسی رد و بدل کی اشد ضرورت ہے۔