Follw Us on:

چین یا پھر امریکا، پاکستان کا سفارتی جھکاؤ کس طرف جا رہا ہے؟

زین اختر
زین اختر
Whatsapp image 2025 08 03 at 11.45.51 pm (1)
چین پاکستان کا سب سے بڑا درآمدی ملک رہا۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں امریکا کا کردار ہمیشہ سے ہی اہم رہا ہے۔ ماضی میں امریکا کے مفادات اور خوشنودی خارجہ پالیسی میں اہم باب رہا، مگر گزشتہ ایک عرصے میں چین پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو بنا، جس نے امریکا کو تشویش میں ڈالا۔

چین نہ صرف جی ڈی پی کی تجارتی و سفارتی ہر سطح پر امریکا کے مقابلہ میں رہا ہے اور اب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ’چین یا امریکا‘ کا سوال بہت زیادہ معنی رکھتا ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کس طرف جھک رہا ہے؟ اس رجحان کو سمجھنے کے لیے حالیہ اعداد و شمار اور معاہدوں پر نظر ضروری ہے۔

پہلے چین کی بات کریں تو چین پاکستان تعلقات میں سرمایہ کاری اور قرضے بڑھ رہے ہیں۔ نومبر 2023 تک پاکستان کا چین کو قرض تقریباً 69 بلین ڈالر تھا، جب کہ مارچ 2025 میں چین نے پاکستان کے لیے 2 بلین ڈالر کے قرض کی ادائیگی رول اوور کی، تاکہ ملک کے مالی استحکام کو برقرار رکھا جا سکے ۔

پاکستان چین اقتصادی راہداری سی پیک کے تحت اربوں ڈالر کے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبے تیزی سے جاری ہیں۔ 2025 کے جون تک چین پاکستان کا سب سے بڑا درآمدی ملک رہا، امپورٹس 16.31 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، سالانہ اضافہ تقریباً 4.8 فیصد   ہے۔

دوسری جانب امریکا نے بھی پاکستان کے ساتھ تجارتی رابطے مضبوط کیے ہیں۔ جولائی 2024 سے جون 2025 کے دوران پاکستان کی امریکا کے لیے برآمدات 6.028 بلین ڈالر ہوئیں، جو پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 10.7 فیصد زیادہ ہیں  ۔ اس مد میں ٹیکسٹائل کا حصہ سب سے زیادہ رہا، ملک کی کل برآمدات میں امریکا کا حصہ اہم ترین مقام رکھتا ہے۔

Trump & asim munir
امریکا نے بھی پاکستان کے ساتھ تجارتی رابطے مضبوط کیے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

امپورٹس کی بات کریں تو 2024-25 کے پہلے چھ ماہ میں درآمدات میں 20.8 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ براہِ راست امریکی تجارتی خسارہ تقریباً ایک بلین ڈالر رہا۔

26–29 فیصد کی محتمل امریکی ٹیرف کی دھمکی کے بعد پاکستان کی فنانس منسٹری نے تیز رفتاری سے مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے جولائی کے آخر میں واشنگٹن کا دوسرا دورہ کیا تاکہ جلد از جلد باہمی تجارتی معاہدہ مکمل کیا جا سکے  ۔

حالیہ اعلان کے مطابق امریکا نے پاکستان کے تیل ذخائر کے استعمال میں دلچسپی ظاہر کی ہے، خاص طور پر بلوچستان میں معدنی اور تیل وسائل پر مشترکہ منصوبوں پر بات چیت جاری ہے۔ یہ پیشرفت امریکا کے درمیان چین کے اثرورسوخ کو متوازن کرنے کی امید رکھتی ہے۔

سیاسی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آیا پاکستان ایک مخصوص سمت میں جھکے گا یا دونوں طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلق برقرار رکھے گا؟ اور اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ عالمی امور ڈاکٹر زاہد منصور کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ‘بیلنسڈ انڈیپنڈنس’ یعنی متوازن خودمختاری کی پالیسی اپنانا چاہیے تاکہ کسی بھی ملک کا بالواسطہ اثر اسے اپنی چالوں کا حصہ نہ بنا سکے۔

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اقتصادی ماہرہ ڈاکٹر رمشا نعیم کا کہنا تھا کہ چین کی سرمایہ کاری فوری فوائد دیتی ہے لیکن قرضوں کی اونچائی مستقبل میں خودمختاری کے سوال اٹھا سکتی ہے، اس لیے مقامی ٹیکنالوجی منتقلی اور مقامی بروکری کو ترجیح دینا ضروری ہے۔

سفارتی ماہر سابق سفیر نعیم احمد کا کہنا ہے کہ امریکا اب چین کو روکنے کے لیے جنوبی ایشیا میں نئے اتحادی تلاش کر رہا ہے اور پاکستان اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، مگر یہ وقتی فائدہ تبدیل ہو کر ایک خطرناک تنازعہ نہ بن جائے۔

Shahbaz & chinese president
چین کی سرمایہ کاری فوری فوائد دیتی ہے۔ (فوٹو: گوگل)

پاکستان نے نئی قومی اقتصادی تبدیلی مہم اڑان پاکستان شروع کی ہے، جس کا مقصد معیشت کو مستحکم کرنا، برآمدات کو دگنا کرنا اور داخلی ترقیاتی منصوبوں میں توازن لانا ہے ۔ اس پالیسی کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ عالمی پارٹنرز کے ساتھ تعلقات صرف قرضے یا امداد تک محدود نہ رہیں بلکہ علم، ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی کے ساتھ بندھے ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان سفارتی جھکاؤ میں روایتی حامی یا دشمن ایسے نہیں بلکہ ایک نیا توازن بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک طرف چین کے ساتھ سی پیک جیسے بڑے پیمانے پر منصوبے اور دوسری طرف امریکا کے ساتھ تجارتی اور دفاعی تعلقات۔ لیکن اصل سؤال یہ ہے کہ پاکستان ایک فعال کھلاڑی بن کر ابھرتا ہے یا دو بڑی طاقتوں کے بیچ میں ایک متبادل مقام تلاش کرتا ہے۔

آگے کا منظر اس بات کی وضاحت کرے گا کہ کیا پاکستان چین کے زیرِ اثر رہے گا یا امریکا کے جھکاؤ سے آزاد ایک خودمختار سفارتی لائحہ عمل اپنائے گا۔ جو بھی راستہ چنے گا، اس کا اثر اس کی معیشت، دفاعی پالیسی اور علاقائی حکمت عملی پر طویل المدت ہوگا۔

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس