غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران جو تباہی پھیل چکی ہےاس کا اثر عالمی سطح پر محسوس ہو رہا ہے۔
15 ماہ کی شدید لڑائی کے بعد آخرکار ایک عارضی جنگ بندی (ceasefire) نے جنوبی غزہ سے شمالی غزہ کی جانب لاکھوں فلسطینیوں کی واپسی کا دروازہ کھولا۔
تاہم، اس واپسی کے ساتھ ہی ایسی تباہی اور خوف کا سامنا ہو رہا ہے جو کئی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔
شمالی غزہ میں تباہی کا منظر
300,000 سے زائد افراد نے جنوبی غزہ سے شمال کی طرف قدم بڑھایا، مگر جب انہوں نے اپنے گھروں کی طرف رخ کیا تو انہیں صرف تباہی نظر آئی۔
شمالی غزہ میں ہر طرف بربادی ہی بربادی نظر آتی ہے۔ وہاں کی عمارات، سڑکیں اور بنیادی ڈھانچے کا مکمل طور پر صفایا ہو چکا ہے۔ ان افراد کے ہاتھوں میں پانی کے ٹینک، بیٹریاں، سولر پینلز اور کچھ دیگر ضروری سامان تھا، کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ شمالی غزہ میں بجلی اور پانی کی شدید کمی ہے۔
عالمی خبررساں ادارے الجزیرہ کے مطابق غزہ کے شمالی حصے کی حالت اتنی بدتر ہے کہ لوگ اپنے خاندان کے دیگر افراد کو یہ بتا کر واپس آ رہے ہیں کہ “یہاں کچھ نہیں بچا، یہ صرف ایک بربادی ہے”۔
اس صورتحال نے انسانی ہمدردی کی عالمی سطح پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “میدان پر ضروریات بہت زیادہ ہیں”، جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ غزہ کی عوام کی مشکلات کا کوئی خاتمہ نہیں۔
ایسے میں قطر یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر حسن باراری نے کہا کہ فلسطینیوں کی واپسی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جنگ بندی کامیابی سے جاری ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی سطح پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ جنگ بندی کو مستقل بنایا جانا چاہیے، حالانکہ اسرائیل اور امریکا کی طرف سے اس پر متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں۔
اس کے باوجود یہ نکتہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اب یہ مشکل ہوگا کہ لوگ دوبارہ اسرائیلی بمباری سے بچنے کے لئے کہیں اور پناہ لیں۔
باراری نے اس بات کا اظہار کیا کہ یہ شاید اسرائیل اور غزہ کے درمیان تعلقات میں ایک نیا موڑ ثابت ہو۔
اسرائیلی میڈیا نے بھی اس مسئلے پر اہم تبصرے کیے ہیں جس میں کین 11 کی نشریات میں اس بات پر تبصرہ کیا گیا کہ فلسطینیوں کی واپسی نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ‘مکمل فتح’ کے خواب کو توڑ دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں فلسطینیوں کا دوبارہ لوٹنا ایک سنگین اشارہ ہے جس سے نیتن یاہو کی حکمت عملی پر سوالات اٹھتے ہیں۔
اس کے علاوہ اسرائیلی میڈیا میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ شمالی غزہ میں واپس جانے والے فلسطینیوں کی گاڑیوں کو امریکی سیکیورٹی کمپنیوں کے ذریعے چیک کرنا ایک نیا ‘چپکنے والا پلاسٹر’ ہےجو اس بحران کا حل نہیں ہو سکتا۔
غزہ کے اسپتالوں میں بھی صورتحال انتہائی سنگین ہے جہاں ہسپتالوں میں خواتین اور بچوں کی زندگیوں کے لئے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کی بمباری اور انسانی امداد کی کمی نے حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے لیے زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بعض اسپتالوں میں بچے ایک ہی انکیوبیٹر میں سلیب ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیونکہ اسپتالوں میں ضروری سامان کی کمی ہے۔
اسی دوران اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر فرینسکا البانیز نے مغربی سیاستدانوں کی خاموشی پر سوالات اٹھائے ہیں خاص طور پر اس وقت جب اسرائیل کی فوج فلسطینی بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
البانیز نے کہا کہ “جب اسرائیل مغربی کنارے میں فلسطینی بچوں کو مار رہا ہے، تو کوئی مغربی سیاستدان آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟”
ان کے اس بیان نے عالمی سطح پر اسرائیل کے اقدامات کے بارے میں مزید سوالات اٹھائے ہیں۔
غزہ میں جنگ کے خاتمے کے باوجود عالمی سطح پر فلسطینی عوام کے حق میں آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو غزہ سے نکلنے کی تجویز دی ہے اور کئی عالمی رہنماؤں نے اس پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ تاہم، بیشتر فلسطینیوں کی نظر میں ان کے حقوق اور آزادی کی جنگ کا ایک حصہ ہے، جس کا خاتمہ ابھی دور ہے۔
غزہ کے شمالی حصے میں فلسطینیوں کی واپسی ایک نیا باب ہو سکتی ہےجو امن اور استحکام کی طرف بڑھنے کا اشارہ دے سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انسانی امداد کی فراہمی، زندگی کے معمولات کی بحالی اور عالمی سطح پر تنازعہ کے حل کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ جنگ بندی ایک عارضی حل ہے یا اس سے کچھ دیرپا امن کی بنیاد رکھی جا سکے گی۔
اس ساری صورتحال میں غزہ کی عوام کا دل شکستہ ہے مگر ان کی امیدیں اب بھی زندہ ہیں کہ عالمی برادری ان کی مدد کرے گی اور ان کا درد ختم کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ اقدام کرے گی۔