غزہ میں امدادی سامان لینے کی کوشش میں ایک بار پھر اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے کم از کم 38 فلسطینی شہید ہو گئے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق دیر البلح کے علاقے میں متاثرہ فلسطینی اقوام متحدہ کی جانب سے فراہم کردہ خوراک لینے کے لیے اس مرکز پر جمع تھے، جسے ایک امریکی امدادی ادارہ چلاتا ہے۔ یہ ادارہ اسرائیل کی حمایت یافتہ تنظیموں میں شامل ہے۔
واقعے کے عینی شاہدین کے مطابق اسرائیلی فورسز نے ہجوم پر متعدد بار فائرنگ کی، جس سے موراگ کوریڈور کے قریب 28 افراد موقع پر شہید ہوئے۔ یہ علاقہ اسرائیلی فوجی کنٹرول کے زون میں آتا ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ جب لوگ ان کی طرف بڑھنے لگے تو صرف انتباہی گولیاں چلائی گئیں اور انہیں کسی ہلاکت کا علم نہیں ہے۔
غزہ کے مقامی اسپتال حکام کے مطابق بدھ کی رات اسرائیلی فضائی حملوں میں بھی مزید 25 فلسطینی شہید ہو گئے۔ ان حملوں پر اسرائیلی فوج نے تاحال کوئی ردِ عمل یا وضاحت پیش نہیں کی۔

یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے غزہ میں مزید فوجی کارروائی یا مکمل قبضے کے منصوبے کا اعلان متوقع ہے۔
مقامی و عالمی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ جاری فوجی کارروائی پہلے ہی غزہ کی 20 لاکھ کی آبادی کو قحط کی دہلیز پر پہنچا چکی ہے، اور مزید پیش قدمی صورتحال کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔
نیتن یاہو کی حکومت میں شامل دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں طویل عرصے سے غزہ پر مکمل کنٹرول اور فلسطینی آبادی کو وہاں سے نکال کر یہودی آبادکاری کے منصوبے پر زور دیتی آئی ہیں۔
مزید پڑھیں؛غزہ: غذائی بحران شدت اختیار کرگیا، اسرائیلی فائرنگ اور بھوک سے مزید 83 فلسطینی شہید
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جب غزہ پر دوبارہ قبضے کے منصوبے سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس تجویز سے آگاہ نہیں ہیں، اور اگر ایسا کوئی اقدام ہوا بھی تو اس کا انحصار اسرائیل کے فیصلے پر ہوگا۔
عالمی برادری میں ان ہلاکتوں پر شدید تشویش پائی جاتی ہے، خاص طور پر جب جنگ زدہ علاقے میں انسانی امداد کے لیے نکلنے والے عام شہری بھی محفوظ نہ ہوں۔
غزہ کی موجودہ صورتحال نہ صرف مقامی آبادی کے لیے المیہ ہے بلکہ اس سے باقی دنیا میں بھی انسانی حقوق کے حوالے سے سنجیدہ سوالات جنم لے رہے ہیں۔