ایک وقت تھا جب جنوبی ایشیا میں امریکی صدور کی نظریں صرف نئی دہلی پر مرکوز رہتی تھیں۔ انڈیا جس کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ، اربوں ڈالرز کی تجارت اور دفاعی معاہدوں کا شور ہوتا تھا، مگر آج اس شور میں خاموشی ہے۔واشنگٹن اور دہلی کے بیچ دراڑیں واضح ہو چکی ہیں اور ان دراڑوں کے بیچ میں پاکستان کو تجارتی و سفارتی تعلقات میں تقویت مل رہی ہے۔
حال ہی میں امریکا نے انڈیا پر 50 فیصد تک ٹیرف عائد کر دیا۔ وجہ، روس سے تیل کی خریداری، عالمی تجارتی اصولوں سے ہٹ کر اپنی پالیسیوں پر اصرار اور امریکی مطالبات کو نظرانداز کرنا۔ اگرچہ انڈیا نے 50 فیصد ٹیرف کے امریکی فیصلے پر سخت ردعمل دیا۔
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ ہم اپنے کسانوں، ڈیری سیکٹر، اور ماہی گیروں کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کہنا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ مجھے اس کا ذاتی طور پر خمیازہ بھگتنا پڑے گا، لیکن میں اس کے لیے تیار ہوں۔
جب کہ اسی تناظر میں انڈین وزارتِ خارجہ نے ٹرمپ کی جانب سے مزید ٹیرف کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے اسے ”غیر منصفانہ، بلاجواز اور غیر مناسب اقدام“ قرار دیا ہے۔
اسی دوران پاکستان نے نئی راہ چن لی۔ خاموش سفارت کاری، کاروباری معاہدے، توانائی کے شعبے میں اشتراک اور واشنگٹن سے روابط بڑھانے کی کوشش تیز ہو گئیں۔ امریکی صدر نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ پاکستان کے ساتھ توانائی کا معاہدہ طے پایا ہے اور یہ بھی عندیہ دیا کہ شاید مستقبل میں پاکستان انڈیا کو تیل فراہم کرے گا۔ یہ بیان صرف ایک جملہ نہیں بلکہ ایک سوچ کی عکاسی ہے کہ خطے میں مرکزیت اب صرف دہلی کی میراث نہیں۔
چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پہلے ہی سی پیک جیسے منصوبوں کی بدولت مضبوط ہیں۔ انفراسٹرکچر، توانائی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون جاری ہے۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے خود کو صرف ایک طرف جھکاؤ رکھنے والا ملک نہیں رکھا بلکہ دونوں عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔

وزیر خزانہ کے حالیہ واشنگٹن دورے اور پاکستانی بزنس وفود کی ملاقاتیں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان اب محض امداد یا قرض کے لیے نہیں بلکہ برابری کی بنیاد پر تجارت اور سرمایہ کاری کی بات کر رہا ہے۔ امریکا کی توانائی اور ٹیک کمپنیوں نے پاکستان میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور ٹیرف میں ممکنہ رعایت کے اشارے بھی ملے ہیں۔
اسی دوران پاکستان نے بنگلہ دیش، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بھی تجارتی راستے کھولنے شروع کیے ہیں۔ علاقائی سطح پر پاکستان کی سفارتی اور تجارتی سرگرمیوں میں ایک نئی توانائی دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے عالمی امور کے ماہر ڈاکٹر زاہد منصورکہتے ہیں کہ پاکستان کو اب کسی ایک ملک پر انحصار کے بجائے خودمختاری اور توازن کی پالیسی اپنانی چاہیے۔
یہ بھی پرھیں؛ایران کے جوہری ہتھیار مکمل تباہ، مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک ابراہیم معاہدوں میں شامل ہو جائیں، ٹرمپ
اقتصادی تجزیہ کار ڈاکٹر رمشا نعیم کا کہنا ہے کہ چین فوری سرمایہ دے سکتا ہے مگر طویل المدتی آزادی کے لیے امریکا اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی روابط ضروری ہیں۔ سابق سفیر نعیم احمد کے مطابق امریکا اب پاکستان کو ایک سنجیدہ متبادل کے طور پر دیکھ رہا ہے، پاکستان کو موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے فوری اور دانشمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس نئے دور میں اپنی جگہ بنا پائے گا؟ کیا یہ تعلقات محض وقتی فائدے تک محدود رہیں گے یا پھر پاکستان واقعی خطے کا تجارتی و سفارتی مرکز بن سکے گا؟
مزید پڑھیں:آپریشن سندور کے دوران پاکستان کے خلاف انڈیا کی معاونت کی تھی: اسرائیلی وزیراعظم کا اعتراف
یہ ایک ایسا لمحہ ہے جہاں پاکستان کا کردار صرف ایک گزرگاہ یا اتحادی کا نہیں بلکہ ایک فیصلہ کن کھلاڑی کا ہو سکتا ہے، اگر وہ صحیح قدم اٹھائے، بروقت فیصلے کرے اور اپنی پالیسیوں میں استقلال لائے۔