Follw Us on:

اسرائیل کا غزہ پر فوجی کنٹرول کا منصوبہ، نیتن یاہو کا یہ خواب پورا ہوسکے گا؟

اظہر تھراج
اظہر تھراج
Whatsapp image 2025 08 08 at 22.19.50
اسرائیل کا غزہ پر فوجی کنٹرول کا منصوبہ، نیتن یاہو کا یہ خواب پورا ہوسکے گا؟( فائل فوٹو)

اسرائیل کی جانب سے تباہ شدہ غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ سامنے آیا ہے، اس منصوبے کی منظوری اسرائیلی کابینہ نے دے دی ہے۔ 

یہ فیصلہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے اس بیان کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل پورے علاقے پر فوجی کنٹرول قائم کرے گا۔

اسرائیل کی جانب سے پیش کیے گئے منصوبے کے تحت اسرائیلی فوج غزہ شہر پر کنٹرول کی تیاری کرے گی اور جنگی علاقوں سے باہر موجود شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی جائے گی۔ غزہ شہر پٹی کے شمال میں واقع اور اس کا سب سے بڑا شہری مرکز ہے۔اسرائیلی منصوبہ سامنے آنے پر دنیا اسے قبول نہیں کررہی اور اسے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے برعکس قراردیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے ’غزہ شہر پر فوجی کنٹرول‘ کے منصوبے کی منظوری دے دی

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت کا غزہ پٹی پر مکمل فوجی کنٹرول کا منصوبہ فوری طور پر روکا جانا چاہیے کیونکہ یہ عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے کے منافی ہے۔

’یہ اقدام دو ریاستی حل اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کے راستے میں رکاوٹ ہے۔‘

آسٹریلیا نے بھی اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اس راستے پر نہ چلے کیونکہ اس سے غزہ میں انسانی بحران مزید بدتر ہوگا۔ وزیر خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ جبری  بے دخلی عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر کہنا تھا کہ غزہ سٹی پر فوجی کنٹرول کا اسرائیلی فیصلہ غلط ہے اور اس پر فوری نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

پاکستان نے بھی اسرائیلی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہا کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات خطے کو مزید کشیدگی کی طرف لے جائیں گے اور یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’غزہ پر اسرائیلی قبضہ‘، اقوام متحدہ کا اسرائیل سے منصوبہ فوری روکنے کا مطالبہ: ’یہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے منافی ہے‘

 انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان منصفانہ دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے اور مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی مذمت کرتا ہے۔

فلسطینی مزاحمتی تحریک ’حماس‘ کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں اس منصوبے کو مسترد کیا گیا ہے۔الجزیرہ کے مطابق حماس کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ بیانات حالیہ جنگ بندی مذاکرات سے ان کے پیچھے ہٹنے کی نشاندہی کرتے ہیں، حالانکہ فریقین معاہدے کے قریب تھے۔

حماس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ نیتن یاہو  ذاتی مفادات اور انتہا پسند ایجنڈے کی خاطر غزہ میں قید اسرائیلی مغویوں کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔

ڈین سوشل سائنسز بہاالدین زکریا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر عمر فاروق زین نے کہا ہے کہ اسرائیل-فلسطین تنازعے میں فلسطینی زمین کا حصول ہمیشہ سے قدامت پسند صہیونیوں کا خواب رہا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ “گریٹر اسرائیل” کوئی سازشی نظریہ نہیں بلکہ یہ اسرائیل کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ پالیسی رہی ہے۔ یقیناً وہ بحیرہ روم کے ساحل پر مکمل بالادستی کے ساتھ فوجی اور معاشی مقاصد کے لیے قبضہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور قبرص کے ساتھ لائن آف کمیونیکیشن تشکیل دے کر ممکنہ خطروں کے پیش نظر یہودی کمیونٹی کے اثاثوں کو وہاں منتقل کریں گے۔

رواں سال فروری میں امریکی صدر نے بھی کچھ ایسا ہی پلان ترتیب دیا، جس کے مطابق غزہ امریکا کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ غزہ کی تعمیر نو کر سکے لیکن اس تجویز کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

Hopeless, starving, and besieged forced displacement of palestinians in gaza
غزہ کی منہدم کی گئی عمارتیں کبھی آباد بستیاں اور شہر تھے۔ (تصویر: ہیوپن رائٹس واچ)

اس تجویز کے مطابق مصراوراردن ان افراد کی دوبارہ آبادکاری کے لیے جگہ مہیا کریں گے  جب کہ  سعودی عرب اس سارے عمل کا خرچ اٹھائے۔ تاہم مصر اور اردن نے اس تجویز کو سختی سے مسترد کردیا تھا۔

اگر ایسا ہو بھی جاتا تو12 لاکھ فلسطینی ان ممالک میں آباد ہوجاتے مگر پھر بھی دس لاکھ سے زائد فلسطینی پیچھے رہ جاتے ،ظاہر ہے ان کو جبری بےدخلی سے ہی نکالا جاتا  مگر اسی تجویز کو اسرائیل اور اس کے حامیوں نے بھی مسترد کردیا تھا۔

کیوں اسرائیل خود ایک عرصے سے فلسطین پر قبضہ جمانا چاہتا تھا تو وہ کیسے امریکا کی یہ تجویز مان لیتا۔

ڈاکٹر عمر فاروق کا مزید کہنا تھا کہ  اقوامِ متحدہ، یورپی ممالک اور مسلم ممالک کی مذمتی قراردادوں کا چرچہ رہے گا، اورجیسے ہی مقبوضہ علاقوں سے جبری انخلاء مکمل ہوگا، کارپوریٹ سیکٹر کے کاروباری معاہدوں کا آغاز ہو جائے گا۔ 

ڈاکٹر ریاض حسین ہمدانی ’پاکستان میٹرز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1948 میں دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر مشرق وسطیٰ میں زبردستی بسایا گیا، ہٹلر کے ’ہولوکاسٹ‘ کو سچ مان لیا جائے تو حق تو یہ بنتا تھا کہ یہودیوں کو یورپ میں بسایا جاتا۔ مگر فلسطینی خطے میں بسانے کی سازش برطانیہ کی تھی، فرانس ان کے ساتھ شامل تھا، اس وقت اسرائیل کے پیچھے جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکا ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ مشرق وسطیٰ کے ممالک پر زوردیتے ہیں کہ وہ ’ابراہم اکارڈ‘ کو تسلیم کریں۔ ابراہم اکارڈ اسرائیلی مفادات کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔

ڈاکٹر ریاض ہمدانی کہتے ہیں کہ امریکا اسرائیل کی پشت پرکھڑا ہے اس لیے وہ دنیا کی بات نہیں مان رہا، اسرائیل میں سارا اسلحہ امریکا کا استعمال ہورہا ہے۔

ڈاکٹرعمر فاروق کا کہنا تھا کہ  مسئلہ فلسطین کا قابلِ عمل حل دو ریاستی فارمولا ہی ہے۔ یورپ، مسلم ممالک اور اقوامِ عالم کی اکثریت بھی اسی حل کو قابلِ قبول سمجھتی ہے۔ 

ہاں، اگر مسلمان مزاحمت پسند اس قدر طاقتور ہو جائیں کہ فلسطین سے یہودیوں کو نکالنے کے قابل ہو جائیں، تو یک ریاستی منصوبہ بھی پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔ 

بہرحال، اس علاقے کو “اوپن زون قرار دے دینا  جہاں یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں مذاہب کے پیروکار آزادی سے رہ سکیں، سب سے پُرامن حل ہو سکتا ہے۔

جب یہی سوال ڈاکٹر ہمدانی سے پوچھا گیا تو وہ کہتے ہیں کہ فلسطین کے مسئلے کو ایران کے علاوہ کوئی حل نہیں کرسکتا، طاقت سے ہی یہ حل ہوگا، عرب کچھ نہیں کرسکتے۔ غزہ میں جاری جنگ میں عربوں نے کچھ نہیں کیا۔ایران پاکستان کی جنگ لڑرہا ہے، اسرائیل کا اگلا ہدف پاکستان ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف ’آپریشن سندور‘ میں اسرائیل نے انڈیا کا ساتھ دیا تھا۔

بیانات کچھ بھی ہوں مگر عملی اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام امریکا، برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی اکثریت اسرائیل کے منصوبے کے ساتھ ہیں۔

Author

اظہر تھراج

اظہر تھراج

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس