امریکا میں سفید فام بالادستی کے حامل نظریاتی گروہ “آرین فریڈم نیٹ ورک” نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست سے متاثر ہو کر اپنی سرگرمیوں کو نہ صرف وسعت دی ہے بلکہ نئی بھرتیاں بھی تیز کر دی ہیں،جس میں نسلی تعصب کی بنیاد پر سیاہ فارم افرادکے ساتھ دوہرا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
عالمی خبررساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے آرین فریڈم نیٹ ورک کے مرکزی چہرے ڈالٹن ہنری اسٹاؤٹ نے کہا کہ ٹرمپ ہمارے لیے وہ کر رہے ہیں جو ہم لوگوں کو برسوں سے بتا رہے تھے، ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک جارحانہ مہم شروع کی، جنوبی سرحد پر فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا اور امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم لاکھوں تارکین وطن کو ملک بدر کرنا شروع کر دیا۔ اس قدم کو سفید فام انتہا پسند قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، ان لوگوں نے ہمارے ملک پر قبضہ کیا ہوا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی نسل پرستی سے متصل بیانیہ، امیگریشن مخالف موقف اور “مغربی اقدار” کی تشہیر نے سفید فام قوم پرست گروہوں کو حوصلہ دیا ہے۔ خاص طور پر ان کی 2024 کی مہم میں تارکین وطن کے خلاف استعمال ہونے والی زبان کو نسل پرستانہ قرار دیا جا چکا ہے، جیسا کہ ان کا یہ بیان کہ “تشدد ان کے جینز میں ہے”۔
امریکی صدر ٹرمپ ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نازی نہیں ہوں، بلکہ نازیوں کا مخالف ہوں۔ میرے بہت سے سیاہ فام دوست ہیں، اس لیے میں نسل پرست نہیں ہو سکتا۔

امریکہ میں دائیں بازو کی انتہا پسندی اور مرکزی دھارے کی سیاست کے درمیان فاصلہ دھندلا پڑتا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 2020 میں سفید فام قوم پرست گروہ امریکی سیاسی تشدد کے 13 فیصد واقعات میں ملوث تھے، جب کہ 2025میں یہ شرح بڑھ کر 80 فیصد ہو چکی ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں گھریلو انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے قائم اداروں کو کمزور کیا گیا، اور وسائل امیگریشن کی نگرانی اور جنوبی سرحد کے دفاع پر مرکوز کیے گئے۔ ایف بی آئی نے اپنے “ڈومیسٹک ٹیررازم” سیکشن میں عملہ کم کیا، جب کہ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے انتہا پسندی سے بچاؤ کے محکمے میں بھی کمی کی گئی ہے،اس سب سے یہی تاثر ملتا ہے کہ امریکی صدر سفید فام انتہا پسندوں کے بیانیے کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
اگرچہ آرین فریڈم نیٹ ورک گروہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تشدد کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن اس کے بیانیے میں “نسلی مقدس جنگ” کی تیاری کا کھلا ذکر ہے۔ یہ گروہ سابق انتہا پسند عناصر کو بھرتی کرتا ہے اور سفید فام بالادستی کے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے۔ اس کا مقصد مختلف سفید فام قوم پرست دھڑوں کو یکجا کرنا ہے۔
امریکا میں سفید فام انتہا پسندی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ رجحان جمہوری اقدار، سماجی ہم آہنگی اور قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے آخری دورِ حکومت (2017-2021) میں بھی سفید فام نسل پرست کافی متحرک تھے، جیسے جنوری 2017 میں ورجینیا کے ایک ریستوران ’انیٹا‘ میں کام کرنے والی ویٹریس کیلی کارٹر کو ایک جوڑے نے ٹِپ دینے کے بجائے ایک پرچی تھما دی، جس پر انھوں نے لکھا کہ “آپ کی سروس بہت اچھی تھی، لیکن ہم سیاہ فاموں کو ٹِپ نہیں دیتے ہیں۔” اس واقعے کے بعد عوامی سطح پر کافی غم و غصہ دیکھنے کو ملا۔ خیال رہے کہ اچھی خدمات فراہم کرنے کے لیے امریکہ میں ٹِپ دینے کی روایت ہے کیونکہ وہاں ویٹرز کی تنخواہیں عموماً کم ہوتی ہیں اور اس کی تلافی ٹِپس سے ہو جاتی ہے۔
اسی طرح مئی 2017 میں امریکی محکمۂ انصاف نے مبینہ طور پر ان دو سفید فام پولیس افسروں پر مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا جنھوں نے ریاست لوزیانا میں ایک سیاہ فام شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

2017 میں ہی ایک اور نسلی تعصب کا واقعہ سامنے آیا جب ایک پولیس آفیسر نے ایک خاتون کی گاڑی روکی تو خاتون ڈر گئی، اس خاتون نے کہا کہ “میں نے ویڈیوز میں دیکھا ہے کہ آپ کس طرح لوگوں کو سزا دیتے ہیں۔” جواب میں پولیس آفیسر کہتا ہے “ہم صرف سیاہ فام لوگوں کو مارتے ہیں، آپ تو سفید فام ہیں، آپ کیوں ڈر رہی ہیں۔” ویڈیو سامنے آنے کے بعد اس پولیس آفیسر کو معطل کر دیا گیا تھا، مگر اس واقعے نے واضح کر دیا تھا کہ امریکہ میں نسل پرستی کتنے عروج پر ہے۔
یاد رہے کہ مئی 2020 میں ایک سفید فام سابق پولیس افسر ڈیرک چاؤن نے 46 سالہ سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھ کر قتل کر دیا تھا۔ اس قتل کے بعد پورے امریکہ میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ افریقی نژاد امریکی بھی معاشرتی اور معاشی عدم مساوات کا شکار ہیں۔
صدر ٹرمپ نے سیاہ فام اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے اُس گروہ کو پھانسی دینے کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی تھی، جن پر نیویارک کے سینٹرل پارک میں سفید فام خواتین کا ریپ کرنے کا الزام تھا، لیکن بعد میں انھیں عدالت نے ان الزامات سے بری کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں:ٹرمپ ٹیرف سے انڈین سٹاک مارکیٹ میں منفی رجحان، سرمایہ کاروں کے اربوں ڈوب گئے
امریکہ میں پہلے سے ہی نسل پرستی عروج پر ہے اور اب اس گروہ کے ایکٹیو ہونے سے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوگا۔ نہ صرف اس تشدد کا شکار سیاہ فام ہوتے ہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے شہری بھی اس نسل پرستی کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ یہ نسل پرست گروہ خاص کر مسلمانوں اور مسلم عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔